ربّ کے دیے ہوئے میں سے دینا۔۔شاہد محمود

‏وسائل پر قابض لوگ غریب کو بتاتے ہیں کہ بھوک خدا کی آزمائش ہے۔ یہ نہیں بتاتے اور نہ یاد رکھتے کہ ؛

” وفي أموالهم حق معلوم للسائل والمحروم ” [الذاريات:19]،
ترجمۂ (اور ان كے مالوں ميں حق ہے سائل اور محروم كے لئے ) ۔

حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے: وَلَکِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ فَرَضَ فِی اَمْوَالِ الْاَغْنِیَائِ حُقُوقاً غَیْرَ الزَّکَاۃِ فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَّ وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاۗىِٕلِ فَالْحَقُّ الْمَعْلُومُ غَیْرُ الزَّکَاۃِ ۔(وسائل 9: 46) مگر اللہ نے دولت مندوں کے اموال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق فرض کیے ہیں۔ چنانچہ اللہ عز و جل نے فرمایا: جن کے اموال میں معین حق ہے سائل اور محروم کے لیے۔ حق معلوم زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔

اللہ تعالى نے اس بات پر زور ديا ہے كہ لوگ اپنى ملكيت كا بہترين حصہ الله كى راه ميں خرچ كريں ، ارشاد ہے :

” لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ” [آل عمران: 92] ،
ترجمۂ: ( تم نيكى كو ہر گز نہيں پہنچ سكتے جب تک اپنى وہ چيزيں (اللہ كى راه ميں ) خرچ نہ كرو جنہيں تم عزيز ركھتے ہو)۔

بہترين مال خدا كى راه ميں دينے ميں حكمت يہ بھى ہے كہ انسان كى مال و زر سے محبت كم ہو جاتى ہے، جذبہ ايثار بڑھتا ہے اور اچھى چيز كارآمد ہونے كى وجہ سے زياده ضرورت مند لوگوں يا معاشره كے كام آتى ہے۔

خدمتِ خلق كے اصولوں ميں سے ايک اصول ” انفاق فى سبيل اللہ ” ہے، در اصل يہ خدمتِ خلق كا جزو اعظم ہے، سورہء بقره كى ابتدا کی آيات ميں ہدايت يافتہ لوگوں كى تعريف ان الفاظ ميں كى گئى ہے:

” هدى للمتقين الذين يؤمنون بالغيب ويقيمون الصلاة ومما رزقناهم ينفقون ” [البقرة:2،3]
ترجمہ: (ہدايت ہے ان پرہيز گاروں كے لئے جو غيب پر ايمان لاتے ہيں، نماز قائم كرتے ہيں اور جو رزق ہم نے ديا ہے اس ميں سے خرچ كرتے ہيں)۔

ہميں چاہئيے كہ ہم اللہ تعالٰی كى راه ميں دل پسند مال خرچ كريں، يہ نہيں كہ حاجت مندوں كو بوسيده گھٹيا اشياء دیں، قرآن حكيم ميں ايك نہايت پُر حكمت آيت ہے :

” يسالونك ماذا ينفقون كل العفو ” [البقرة: 219]،
ترجمہ: ( وہ پوچھتے ہيں كہ راهِ خدا ميں كيا خرچ كريں، كہو جو كچھ تمہارى ضرورت سے زائد ہو) ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت كا مفہوم ہر زمانے اور ہر معاشرے ميں بدلتا رہا ہے، علاوه ازيں ضرورت معاشرے كے مختلف طبقوں ميں مختلف معانى كى حامل ہے، ارشاد نبوى  كى روشنى ميں ضرورت كى تعريف يہ ہے كہ انسان كفايت شعارى سے كام ليتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل وعيال كے لباس اور قيام پر كم سے كم خرچ كرے اور باقى زكوة اور فرائض كى ادائيگى كے بعد جو بچے وه تمام خدمتِ خلق ميں دے دے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply