روداد سفر /نومسلم کے سوالوں کاخوف۔۔قسط 42/شاکر ظہیر

2012 تک سوالات کا ایک ہجوم تھا جو میرے پاس جمع ہو چکا تھا بلکہ میرے سر پر سوار ہو چکا تھا جس کے جوابات میں نے جلد از جلد تلاش کرنے تھے ۔ کہیں سنت کے نام پر کجھور ، کدو ، ٹوپی ، مسواک اور کندورہ ( عربی چوغہ ) تھا اور کہیں پارسائی کے نام پر بناوٹی ، عقل و فہم اور عمل سے دور ایسے لوگ جن کے پاس جا کر اس مذہب ہی سے گھن سی محسوس ہو اور یوں گویا ہوں کہ یا خدایا اگر تیرے پسندیدہ ایسے ہیں تو مجھے پھر بس مٹی ہی کر دے لیکن ان کا ساتھ نہ دے ۔ اور اگر یہ تیرا نام بیچنے والے ہیں تو مجھے ان سے دور کر دے ۔

بہت سی روایات یعنی حدیثوں نے ایک الگ مصیبت ڈالی ہوئی تھی کچھ تو ایسی کہ علم و عقل قبول کرنے کےلیے راضی نہیں اور قبول کر کے خود اپنا دل مطمئن نہیں، دوسرے کو کیا بتانا ، سمجھانا ۔
قرآن جس پر اعتماد کی انتہا کرتا ہےء اس کے بارے میں شکوک و شبہات کی ایسی کہانیاں کہ باقی کچھ بچتا ہی نہیں ۔

نبی ﷺ جس کی ذات اور کردار پر سارا اسلام کھڑا ہے اس کے بارے میں ایسے افسانے کہ بس عام شخص بھی وہ باتیں اپنے بارے میں پسند نہ کرے ۔ کہیں نبی پر جادو ہو گیا اور معاذ اللہ دماغ ہیک کر لیا گیا کہ معلوم نہیں کہ یہ کام کیا ہے کہ نہیں ۔ کہیں نبی چھ سال کی بچی سے شادی کر رہے ہیں . کہیں نبی خودکشی کی نعوذ باللہ کوشش کر رہے ہیں ۔ کہیں نبی کو وحی کا یقین ایک مسیحی دلا رہے ہیں ۔ یعنی جسے اپنے نبی ہونے کا خود یقین نہیں انہوں نے دنیا کو کیسے یقین دلانا ۔

فقہ تھی تو الگ سے کھلواڑ کر رہی تھی ۔ اور اسی سے فرقے تھے تو وہ اپنے ستم ڈھا رہے تھے ۔ کہیں دو تین ماہ کی متعین مدت کی شادیاں ہو رہی تھیں اور کہیں اونچے اور دھیمے ذکر پر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات اور لڑائیاں ۔ کہاں اپنا ایمان بچانا مشکل اور کہاں ایک خدا کو ماننے والے ایک دوسرے سے اختلاف پر ایک دوسرے پر لعنت کر رہے ہیں ۔
کہاں اس مذہب کے دائرے میں موجود کو باہر نکلنے کی بھرپور کوشش اور کہاں کسی نئے شخص کو اس مذہب میں برداشت کرنا ممکن ۔

کہاں اسلامی حکومت اور خلافت تھی جس کے قائم ہوتے ہی دودھ سے دھلے سارے ہو جاتے اور کہاں اپنا ایمان خدا پر بچانا بھی مشکل۔ اور مثال دیتے تو ان کی جو خدا کی منتخب کردہ قدوسیوں کی جماعت تھی ، ان کا آج کے دور سے کیا تقابل ۔ کہاں آج معاشرے میں موجود لوگوں کے اخلاقی حالات اور کہاں وہ خلافت قائم ہوتے ہی آسمان سے ہی شاید اعلیٰ اخلاق کے عوام اور حکمرانوں کی آمد ہو جاتی ۔ اور مثال پیش کی جاتی کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئیں گے ۔ کیسے ذہن تسلیم کر لے ، کہ حقیقت میں حکومت تو معاشرے میں موجود کا عکس ہوتی ہے ۔

جس سے بھی روایات پر بات کرو وہ منکر حدیث کے فتوے کا ڈنڈا لے کر کھڑا ہے ۔ جس سے فقہ کے سقم کی بات کرو وہ تشکیک کا شکار لبرل اور مغربی تہذیب کا دلدادہ اور بڑی ہستیوں کے بے قدری کا فتویٰ لیے کھڑا ہے ۔ جس سے تصوف کی کہانیوں کی بات کرو وہ گستاخ کی دفعہ لیے کھڑا ہے ۔ جائیں تو جائیں کہاں آخر دماغ اور سوچنے کی صلاحیت بھی تو اسی خالق نے دی ہے یہ سوئچ آف تو نہیں کیا جا سکتا . جواب چاہیے تھے تاکہ اس دل کو مطمئن کیا جا سکے ناکہ فتوے ۔۔ جن کے ذمہ جواب تھے جو خود کو خدا کا نمائندہ کہتے تھے وہ تو صرف کلرک ہی تھے جن کے پاس کسی کو مطمئن کرنے کے جواب نہیں تھے بلکہ دائرے سے باہر نکلنے کےلیے دھکے دینے کے شیدائی تھے اور ہر وقت تاک میں رہتے کہ کس کو دھکا دینا ہے ۔ تاکہ دھکا دینے کے بعد اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹا  جا سکے اور نام کے ساتھ دو چار القاب بھی لگائے جا سکیں ۔

یہ سب کچھ کوئی کتابی باتیں نہیں تھیں بلکہ میرے اپنے ساتھ پیش آ رہی تھیں ۔ کسی کے کہنے سے شاید اتنا اثر نہیں ہوتا خود پر بیتی سے کوئی کیسے بھاگ سکتا ہے ۔ اور ان سب باتوں کا شکار صرف پاکستانی نہیں تھے ،یمن ، عراق ، موریطانیہ ، لیبیا والوں کی بھی یہی حالت  تھی۔
اب جانیں تو جائیں کہاں ۔ یہ تو رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ۔

ایک اور بڑی آفت پیش آ گئی جس سے میں اپنی سی ریت میں سر دے کر بچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ یہ کہ ایک شام میری بیوی کی سہیلی میمونہ ہمارے گھر آئی اور کھانے کے دوران اس نے میری بیوی کو بتایا کہ او آئی ( Wu yi ) کالونی میں ایک مدرسہ ٹائپ نو مسلموں کےلیے بنایا گیا ہے ۔ اس میں ہر ہفتے کی شام نو مسلم خواتین اکٹھی ہوتی ہیں ، کھل کر ڈسکشن ہوتی ہے اور ساتھ ایک مسلمان عالم بھی بیٹھے ہوتے ہیں ۔ مسلمان عالم بھی تبلیغی جماعت کے جو مذہب پر ڈسکشن کو ہینڈل کرتے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ بس میں نے دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیں کہ یا اللہ اب تو ہی عزت رکھنے والا ہے ۔ کہاں یہ جدید تعلیمی اداروں سے پڑھی لکھی خواتین جن کی تعلیم کی بنیاد ہی عقل اور سائنس ہے اور جو اپنے ہاں موجود صدیوں کی تاؤ ازم ، کنفیوشس ازم اور بدھ کی روایات اور کہانیوں کو بے دردی سے ایک طرف پھینک رہی ہیں اور کہاں تبلیغی قصہ کہانیوں والے تصوف کے تبلیغی مولانا یا کلرک کہہ لیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی خواتین بھی وہ جو غیر ملکی مسلمانوں کی بیویاں ، اپنے شوہروں کو نیچا دکھانے اور خود کو برتر ثابت کرنے کے مرض میں مبتلا ۔ اور مقابل میں وہ جو نیچے سے آسماں پر کاٹھیاں ڈالنے کے چکر میں مبتلا اور ساتھ ساری باتیں ہی عقیدت اور خوابوں پر مبنی ۔

اب تو میں امتحان میں بس بیٹھا ہی دیا گیا ۔ ظاہر ہے جو کچھ سوال و جواب ہونے ہیں وہ واپس آ  کر مجھ ہی سے ڈسکس ہونے ہیں ۔ اور میں کہ صرف مولانا مودودی رحمہ اللہ ہی کو لے کر بیٹھا تھا جن کی خطبات کتاب میں نے دوبارہ نکالی اور پڑھنا شروع کر دی ۔ لیکن وہاں تو نماز بھی فوجی پریڈ کی طرح ہی تھی اور مسلمانوں کا حج بھی میدان جنگ ۔ روزہ بھی بھوک پیاس مشقت کی ٹریننگ اور زکوٰۃ بھی اسی نظام کو چلانے کا ٹیکس ۔ یہ ہر طرف جنگ ہی جنگ تھی تو اسلام جسے سلامتی کہا جا رہا تھا وہ کہاں تھا ۔ ہر وقت ہر جگہ بس ہم نے جنگ ہی کرنی تھی تو اس معاشرے میں ہم رہ کیسے سکتے تھے ۔ اور وہ امن کہاں تھا جس کے قائم ہوتے ہی لوگ سکون اور دلیل سے سچا پیغام سننے کےلیے اپنے دل و دماغ کھول دیتے ہیں ۔

باقیوں کےلیے یہ کام شاید فرض کفایہ ہو میرے لیے تو میرے گھر اور آئندہ نسلوں کا مسئلہ تھا ۔ میں جس نے ایک غیر مسلم کو ساتھ چلانا تھا اور اپنی بیٹی کو دلائل سے آراستہ کرنا تھا کہ وہ آئندہ آنے والے وقت میں بھی اس مخلوط معاشرے میں گم نہ ہو جائے ، جہاں قدم قدم پر سوال کھڑے تھے میں خود اپنے لیے دلائل کہاں سے لے کر آؤں ۔

فاروقی صاحب کے بھانجے عدنان کا آفس تھا جہاں فارغ وقت میں ، میں نوید اور عدنان بیٹھ کر گپ شپ بھی کرتے وہیں اکٹھے آفس میں نماز پڑھتے اور کبھی کبھار مذہب پر ڈسکشن بھی کرتے تھے ۔ عدنان کے بڑے بھائی کی بیوی یعنی عدنان کی بھابھی بھی نو مسلم تھی ۔ عدنان نے یہی مشورہ دیا کہ ایسے مدارس سے اپنی بیوی کو دور رکھو ۔ مدرسے سے دور رکھوں لیکن جینا تو اسی معاشرے میں تھا پھر بیٹی نے بھی یہیں رہنا انہی سکولوں میں پڑھنا تھا ۔ بات صرف ایک مدرسے کی تو کہاں تھی یہاں تو قدم قدم پر سوال کھڑے تھے ۔ اس لیے یہ ایک نا قابل عمل تجویز تھی صرف وقت گزاری اور ریت میں سر دینے کے مترادف تھی ۔ لیکن عدنان کے پاس جانے سے کچھ فائدے ہوئے ۔ ایک فیس بک اور دوسرے وہ پی این (! VPN ) کا پتہ چل گیا جس سے یوٹیوب اور فیس بک کھولی جا سکتی ہے ورنہ تو چائنا میں ان سب پر پابندی ہی تھی ۔

فیس بک ( VPN ) سے کھولی اور اکاؤنٹ بنایا ۔ جماعت اسلامی کے لوگوں کو ایڈ کرنا شروع کیا ۔ اپنے کوریا والے بھائی سے پوچھا انہوں نے جماعت کے ایک ساتھی کا جن کی رہائش بیجنگ میں تھی کا فون نمبر دیا ۔ انہیں کال کی اور فیس بک پر ایڈ کیا ۔ اکثر ان سے اس مسئلہ پر بات ہوتی لیکن وہ وہی باتیں تھیں اسلامی نظام اور انقلاب ۔ یہاں اپنا خدا بچانا مشکل ہو رہا تھا وہ وہاں انقلاب کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ بات وہیں کی وہیں تھی ۔ اور میری بیوی ایک چکر اس او آئی (wi ai ) والے مدرسے کا لگا آئی تھی ۔ اس کی کچھ باتیں نئی نئی ہو رہی تھیں ۔ یعنی میرے امتحان کا وقت قریب آتا جا رہا تھا اور میری تیاری صفر تھی۔

آدھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی اور میں وضو کر کے تہجد کی نماز پڑھنے لگ جاتا ۔ کہیں سے کوئی سہارا راستہ نہیں مل رہا تھا یہی دعا ہوتی یا مالک راستہ دکھا دے کوئی راہ سجھا دے میں جاؤں تو جاؤں کہاں تیرے در کے سوا تو مجھے کوئی اور در معلوم ہی نہیں ، کوئی اور در والا مجھے قبول ہی کیوں کرے اتنا عرصہ بھروسہ تجھی پر کرتا رہا ہوں ۔ کوئی راہ سجھا دے ۔ میری اور میری آل اولاد کو اپنی حفاظت میں لے لے ۔ یہاں تو میں یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتا کہ ہم پاکستانیوں یا چائنا والے مسلمانوں کو تیرے دین کی صحیح سمجھ نہیں آئی ، یہاں تو باقیوں کا بھی یہی حال ہے ۔ تعصب اور نفرت خانہ جنگیوں کی وجہ سے صرف چائنا والے مسلمان ہی ایک دوسرے سے ہی عداوت نہیں رکھتے باقیوں کا بھی یہی حال ہے ۔ ہر کوئی اپنے فرقے میں قید ہے اور دوسرے سے لاتعلقی ہی کا اظہار کر کے خدا پر اپنی ملکیت کا دعویٰ لے کر اس کی جنت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہے ۔ ہم کہاں جائیں گے ۔ کوئی روحانیت کی دنیا سجا کر بیٹھا ہے اور کوئی انقلاب کے خواب دن کی روشنی میں دیکھ رہا ہے ۔

مجھے تو خالق کے وجود سے بات شروع کرنی تھی پھر اس کے نظام سلطنت ، اس کے پیغمبروں کی بعثت ، اس کے فرشتوں ، اس پر  بھیجی کتابوں ، اس انسان کے وجود کا سبب اور اس کی انتہا ، ہر بات پر دلیل چاہیے تھی ۔ اور بغیر کسی لگی لپٹی عقیدت کے صرف اور صرف علمی اور عقلی دلیل ۔ یعنی بچپن سے لے کر اب تک کی بنی بنائی عقیدت کو لپیٹ کر ایک طرف رکھنا تھا اور بات ایسے شروع کرنی تھی کہ جیسے میں نے آج ہی اپنے خالق سے متعارف ہونا ہے اور کیوں متعارف ہونا ہے ، اس سے متعارف ہونے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی ، وقت تو اس سے نا آشناؤں کا بھی گزر رہا ہے اور خوب گزر رہا ہے ، یہ بھی سوال سامنے رکھنا ہے ۔ دلائل کتاب اللہ سے بھی نہیں دے سکتا کہ مجھے تو اسے بھی اس دنیا سے ماوراء کسی ہستی کا کلام ثابت کرنا تھا کہ اس میں کیا خاصیت ہے کہ وہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا اور وہ علم کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ یعنی علم کے تین ذرائع تو ہر انسان کے پاس موجود ہیں تجربہ و مشاہدہ ، عقلی استنباط اور اسٹیبلشڈ ( established ) ہسٹری ۔ چوتھا ذریعہ علم اللہ کی کتاب ہے تو کیسے ۔

بے بسی کا عالم یہ کہ سوال بھی میں نے خود ہی کرنے تھے اور جواب بھی خود ہی ڈھونڈنے تھے ۔ ایک لمبا سفر نئے سرے سے شروع کرنا تھا جس کےلیے میرے پاس وقت بہت ہی کم تھا لیکن اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں تھا ۔ اور منزل وہ ایمان تھا جس نے میرے دل پر گھر کرنا تھا یعنی مطلوب یہی سفر تھا جس سے باقی سارے اعمال نے پھوٹنا تھا ۔

ایک رات تو بس الفاظ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ بے بسی کا عالم جاؤں تو جاؤں کہاں ۔ آخر اس ڈر سے کہ کہیں میری بیوی مجھے اس حالت میں دیکھ نہ لے کہ یہ خود جس مذہب کا ماننے والا ہے اس کےلیے اسے خود دلائل نہیں مل رہے تو مجھے یہ کیا دلائل دے گا ۔ خاموشی سے اٹھا اور جا کر بستر پر لیٹ گیا ۔ اس آس امید کے ساتھ کہ خدا ضرور راہ دکھائے گا میں بھی تو سچی لگن رکھتا ہوں ۔ وہ مجھے مایوس نہیں کرے گا تنہا نہیں چھوڑے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply