ابھی تک کیلئے اتنا ہی۔۔حسان عالمگیر عباسی

یہاں جماعت یا اس کے انتخابی نشان یا نظریے کی اہمیت نہیں ہے یا ان تمام کی اہمیت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ جب ایک چیز کی اہمیت ہی نہیں ہے تو بس نہیں ہے۔ اب کسی کی دم پکڑ لینا ضد کہلاتی ہے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ فطین شخص منزل پہ نہیں انتخاب پہ یقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انتخاب کیا ہونا چاہیے؟ خان صاحب لوگوں کا انتخاب ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب کراچیٹس کا انتخاب ہیں۔ حال ہی سے قبل ہدایت الرحمان صاحب بلوچیٹس کا انتخاب تھے۔ نواز شریف صاحب قوم کا انتخاب رہے ہیں اور شاید آگے بھی رہنے ہیں۔ بے شمار مثالیں ہیں۔ عوامی اجتماعی سوچ کا مقابلہ اہل فہم و ادراک و دانش کا کام ہی نہیں ہے۔ لکیر کا فقیر ہونے سے کچھ نہیں ہونا۔ اپنی سوچ کے مطابق کیسا بھی دائرہ مختص کر کے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور دوسروں کو بھی چاہیے کہ اپنے دائرے بنائیں اور دوسروں کے دائروں کو بھی عزت دیں۔ توقع رکھنے کا جب فایدہ نہیں ہے تو قبول کیا جانا ہی بہتر ہے مثلاً ہمارے ہاں کئی مذاہب ہیں حتیٰ کہ مسلمانوں کی بھی اپنی اپنی اپروچز ہیں۔ سب کلی طور پہ غلط بھی نہیں ہیں اور سب کے سب سارا ٹھیک بھی نہیں ہیں اور بحث الجھاؤ کا نام ہے لہذا سلجھاؤ کہتی ہے کہ ہنس کے ٹال دو۔ کچھ دن پہلے ایک بھائی کہہ رہے تھے کہ کامن چیزوں پہ بات ہو، دوسروں کے انتخاب کو عزت ملے اور ٹارگٹس سیٹ کیے جائیں اور با مقصد اچیومینٹس کو اہمیت دی جائے۔ بس ابھی تک کے لیے اتنا ہی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply