وزیر برائے پانی و بجلی کو آگاہ کیا گیا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں پانی کی سپلائی کی لائنیں ناکارہ ہو چکی ہیں اور اکثر جگہ لائنیں ڈیمیج ہوکر پانی سڑکوں پہ بہہ نکلتا ہے۔
وزیر موصوف نے فرمایا شہر میں پانی کی سپلائی فوری بند کردی جائے۔
متعلقہ افسران نے کہا کہ سر اس طرح تو شہر میں پانی کا بحران پیدا ہوجائے گا۔
وزیر موصوف نے مدبرانہ انداز میں جواب دیا
“پہلے ایک مسئلہ حل کرلیں پھر دوسرے کے بارے میں سوچیں گے۔”
بس ملکِ عزیز میں چارسُو اسی پالیسی کا دور دورہ ہے ۔کسی بھی مسئلے پہ فوری اورناقص حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔ تاکہ فوری طور پہ آنکھوں کے سامنے نظر آتا مسئلہ پلک جھپکتے میں”حل” نہ ہو بلکہ آنکھوں سے “اوجھل”ہو جائے۔
کیونکہ ان سب مسائل کا تعلق عوام سے ہے۔ اشرافیہ کا کیا ہے وہ تو روٹی کی جگہ کیک بھی کھا سکتی ہے۔ تو مسائل حل ہوں نہ ہوں ان کا اس طرح کے ایشوز سے کیا لینا دینا۔
ہاں مگر یہ بات بالکل یقینی بنائی جاتی ہے کہ عوام کہیں سکون کا سانس نہ لینے پائیں ورنہ ان کے اپنے مسائل کے حل کےلئے ان کے پیچھے لپکتے انسانوں کو دیکھ کر جو دلی تسکین ان آقاؤں کو حاصل ہوتی ہے وہ غیر ممالک کے بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں بھی دستیاب نہیں۔
اب کسی نیک بندے نے “کریم”اور “اوبر” سروس شروع کرکے عوام کو ذرا سکون سے سانس لینے کا موقع کیا دیا۔ ان بڑے بڑے آقاؤں کی نیندیں ہی حرام ہو گئیں کہ کہیں یہ عوام اپنے مسائل آپ حل کرکے سکون کی زندگی نہ گزارنے لگے۔
اسی لئے یہ سفری سہولت اب پاکستانی عوام سے چھیننے کا مناسب بندوبست کرلیا گیا ہے۔ کیا ہوا جو سڑکیں ٹوٹی ہیں اور ٹریفک کے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔سڑکوں پہ چلنے والی بسیں ہیلتھ اینڈ سیفٹی (صحت اور تحفظ) کے مطلوبہ معیار پہ پورا نہیں اُترتیں ۔
جا بجا ٹوٹی پھوٹی اور ناقص انجن والی گاڑیاں دھواں چھوڑتی سڑکوں پہ آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہیں ہیں۔اور کیا قصور ہے جو بچارے وزیر و افسرانِ شاہی کی ائر کنڈیشنڈ گاڑیاں اس آلودگی کا لطف اٹھانے سے محروم ہیں ۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ کچھ اور ہے حکومت کو کسی نے خبر دی ہے کہ عوام نے “کریم” اور “اوبر”کے آنے سے کہیں تھوڑا بہت سکون اور آسانی محسوس کی ہے۔ اور حکومت نے دن رات ایک کرکے اس سکون کے خاتمے کے لئے جو بیڑا اٹھایا ہے وہ عوام کا “بیڑہ غرق”ہونے تک جاری رہے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں