پانی میں آگ/ڈاکٹر حفیظ الحسن

پانی میں آگ؟؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

1994 میں بالی ووڈ کی فلم “مہرہ” میں اکشے کمار جی اور روینہ ٹنڈن صاحبہ پر ایک گیت فلمایا گیا۔ اس گیت میں روینہ ٹنڈن صاحبہ ، محترم اکشے کمار صاحب کو بارش میں نہاتے ہوئے عرض گزار رہی ہوتی ہیں کہ ںارش میں ناچنے کا قصور دراصل انکا نہیں بلکہ چونکہ ٹِپ ٹِپ پانی برس رہا ہے لہذا پانی نے آگ لگائی ہوئی ہے۔ اور آگ چونکہ دل لگی ہے لہذا دل کو اکشے جی کی یاد آ رہی ہے۔

گو اس گیت کے لکھاری آنند بکشی نے یہ گیت کوئی سائنس پڑھے بغیر فلم اور موقع کی مناسبت سے لکھا تھا تاہم اس گیت میں وہ ایک نہایت دلچسپ سائنسی موضوع کو چھیڑ گئے یعنی پانی سے آگ لگانے کا۔۔

جی ہاں پانی سے آگ!! پانی جو آگ بجھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس سے آگ لگانا ممکن ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پانی کا فارمولا ہے H2O یعنی اس میں دو ہائیڈروجن کے ایٹم ہیں اور ایک آکسجین کا۔ اور ہائڈروجن کو اگر الگ کیا جائے اور اسے جلایا جائے تو آگ بھڑکتی ہے ۔ تاہم اس طریقے میں پانی میں آگ نہیں لگتی بلکہ ہائیڈروجن میں آگ لگتی ہے مگر کیا واقعی پانی سے آگ لگائی جا سکتی ہے۔

عام درجہ حرارت پر پانی مائع حالت میں پایا جاتا ہے۔ مگر اگر پانی کو سطح سمندر پر ہوا کے دباؤ سے 217 گنا زیادہ دباؤ پر 373 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کیا جائے تو یہ ایک خاص شکل اختیار کر لیتا ہے جو نہ ٹھوس ہوتی ہے، نہ مائع حالت اور نہ ہی گیس۔ بلکہ اسے ہم گیس نما مائع کہہ سکتے ہیں۔ اس حالت کو پانی کی سپرکریٹیکل حالت کہتے ہیں۔ سپر کریٹیکل پانی میں اگر نامیاتی اجزا ڈالے جائیں (جیسے کہ پودے، لکڑی یا فضلہ وغیرہ) تو ان نامیاتی اجزا میں موجود کاربن اور ہائیڈروکاربن پانی میں موجود آکیسجن کے ساتھ کیمائی طور پر ری ایکٹ کرتے ہیں اور یاد رہے کہ کسی نامیاتی شے(لکڑی، کاغذ وغیرہ) کے جلنے کا عمل دراصل اس کے ساتھ آکسیجن کے کیمیائی عمل کو کہتے ہیں۔

یوں سپر کریٹیکل پانی میں ایک طرح سے آگ لگ جاتی ہے تاہم اس سے کوئی دھواں نہیں اُٹھتا۔ گویا یہ بغیر دھویں کی آگ ہوتی ہے۔

ناسا پچھلے کئی برس سے انٹرنیشنل سپیس سٹیسن پر سپر کریٹیکل پانی کے تجربات کر رہا ہے۔ اس طریقے سے فُضلے کو بہتر طریقے سے جلایا جا سکتا ہے جس سے محض کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی بنتا ہے اور دیگر مضر کیمکل کا اخراج نہیں ہوتا۔
اگر نکاسی آب کے پانی کو سپر کریٹیکل پوائنٹ تک لایا جائے تو اس میں موجود فضلہ بہتر طور پر تلف کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اس عمل سے خلا میں، سمندروں میں اور شہروں میں بہتر طور پر فضلے کو تلف کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس طریقہ کار میں چند مسائل ہیں جن میں سب سے اہم پانی میں موجود نمکیات کا ہونا ہے جو جب پانی کو سپیرکریٹیکل پوائنٹ تک لایا جائے تو جم جاتے ہیں اور جس دھاتی کنٹینر میں یہ ہوں اسے متاثر یا خراب کر سکتے ہیں اور یہ مسئلہ نکاسی آب کے پانی میں کہیں زیادہ ہے۔

تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے تحقیقات جاری ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں اس طریقہ کار کے ذریعے ماحول دوست طور پر فضلے کو تلف کیا جا سکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خوش رہیں ، سائنس سیکھتے رہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply