روحانی دماغ/انور مختار(1)

انسانی دماغ قدرت کا ایسا عجوبہ جو پندرہ واٹ جتنی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس سے ایک ایل ای ڈی بلب جلایا جاسکتا ہے۔انسان کا دماغ بہت کچھ سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا ہر شخص کے لئے ممکن ہے۔ دماغ کے ایک کھرب سے زائد خلیے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ تقریباً ایک لاکھ دوسرے خلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ خلیات اس چھوٹے سے عضو کو بہت سی معلومات کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ نت نئی چیزیں سیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Researchers have identified specific brain circuitry that is related to people’s sense of spirituality — and it’s centered in a brain region linked to pain inhibition, altruism and unconditional love. The findings add to research seeking to understand the biological basis for human spirituality.
Spiritual experiences were associated with lower levels of activity in certain parts of the brain: The inferior parietal lobe (IPL), the part of the brain associated with perceptual processing, relating to the concept of self in time and space.
آج کل بہت سے طب، سائنس اور نفسیات کے ماہرین انسانی روحانیات پر تحقیق کر رہے ہیں اور روحانی تجربات کا سائنسی اور نفسیاتی تجزیہ بھی جدید سائنسی طریقوں سے کیا جا رہا ہے آج بہت سے دانشوروں اور سائنسی محققین کا خیال ہے کہ روحانیت انسانیت کا حصہ ہے اور روحانی تجربات ایسے لوگوں کو بھی ہو سکتے ہیں جن کا کسی خدا اور مذہب پر ایمان نہ ہو۔ مذہبی لوگ روحانی تجربات کی تعبیر اور تفہیم اپنی مذہبی روایات کے حوالے سے کرتے ہیں اور ان کا تعلق خدا اور مذہب سے جوڑتے ہیں جبکہ سیکولر ماہرین ان تجربات کو انسانی دماغ ’ذہن‘ شخصیت اور لاشعور کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روحانیات کی نفسیات ایک نیا علم ہے جس نے پچھلی صدی میں کافی ترقی کی ہے اور سائنس دانوں نے دماغ کے روحانی تجربات سے متعلقہ حصے کو دریافت کر لیا ہے
Cerebral Cortex Journal
(cerebral cortex, also called gray matter, is your brain’s outermost layer of nerve cell tissue. It has a wrinkled appearance from its many folds and grooves.)
سیریبرم (دماغ کا سامنے والا حصہ) جسے سیریبرل کورٹیکس (cerebral cortex) کہا جاتا ہے۔ یہ سرمئی مادے اور اس کے مرکز میں سفید مادے پر مشتمل ہوتا ہے۔دماغ کا یہ سب سے بڑا حصہ جسم میں حرکت اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور جسم میں درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اس کے دیگر حصے بات کرنے، بولنے، فیصلہ کرنے، بصارت، سماعت، سوچ اور استدلال، مسئلہ حل کرنے، جذبات اور سیکھنے کے قابل بناتے اور ان سے متعلق ، دیگر حواس و افعال پر کام کرتے ہیں
Cerebral Cortex is a scientific journal in the neuroscience area, focusing on the development, organization, plasticity, and function of the cerebral cortex, including the hippocampus. It is published by Oxford University Press, and had as its founding editor Patricia Goldman-Rakic.
“سیریبرل کورٹیکس ” جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک فرد کے اپنے وجود سے باہر کے وجود یا ماحول کے ساتھ قائم کردہ معنوی تعلق کا تعین کرنے والے روحانی تجربات کا تعلق دماغ کے اطراف کی جھلیوں سے ہے۔امریکہ کی ژالے اور کولمبیا یونیورسٹیوں کے سائنس دانوں نے 27 بالغ جوانوں پر تجربات سے اخذ کیا ہے کہ روحانی تجربات کے دوران ان افراد کے دماغ کی اطراف کی جھلیوں میں نیورون کی حرکت میں تیزی آ گئی۔تحقیق کے دوران تجربے میں شامل اور ماضی میں شدید ڈپریشن یا لاپرواہی کے احساسات سے گزرنے والے افراد سے دینی یا دنیاوی ، مافوق الفطرت مظاہر، دیگر انسانوں یا وجودِ بالا کے ساتھ روحانی رابطے کے دوران محسوس کئے جانے والے احساسات بیان کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ان احساسات کے بیان کے دوران افراد کے دماغ کے گرافک مناظر FMRI اتارے گئے جن میں افراد کے دماغ کے اطراف کی جھلیوں میں نیورون کی تیز حرکت کی نشاندہی کی گئی۔سائنس دانوں کے مطابق اس دریافت سے نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں مدد ملے گی۔
ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں نے ڈاکٹر جل ٹیلر کی کتاب مائی سٹروک آف ان سائٹ
My Stroke of Insight by Dr Jill Taylor
(A brain scientists recounts her experiences after suffering a stroke at the age of thirty-seven, describing her discovery of differences in the left and right side of the brain and the steps she took over a period of eight years to recover her health.)
پڑھی جو سائنس اور روحانیات کے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک دماغ کی ماہر ڈاکٹر اپنے روحانی تجربات کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے گفتگو کرتی ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر جو یونیورسٹی میں انسانی دماغ پر تحقیق کر رہی تھیں خود ایک سٹروک stroke کا شکار ہو گئیں اور چند ہی گھنٹوں میں اتنی بیمار ہوئیں کہ ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔ ایکس رے x۔ ray نے بتایا کہ ان کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو گیا ہے۔ ان کے دماغ کا دورہ اتنا شدید تھا کہ انہیں شفایاب ہونے میں کئی سال لگ گئے۔ ان چند سالوں میں ان کے ڈاکٹروں ’نرسوں اور اہل خانہ نے ان کا خاص خیال رکھا۔ ان کی والدہ نے دن رات ان کی خدمت کی۔ آخر وہ شفایاب ہو گئیں۔ شفایاب ہونے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیمار ہونے اور شفایاب ہونے کے بارے میں ایک کتاب لکھیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی کہانی تفصیل سے لکھی۔ڈاکٹر جل ٹیلر کی بیماری اور شفایابی کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اگرچہ ان کا بایاں دماغ مفلوج ہو گیا تھا ’جس کی وجہ سے وہ نہ تو بات چیت کر سکتی تھیں اور نہ چل پھر سکتی تھیں لیکن ان کا دایاں دماغ کام کر رہا تھا۔ چونکہ دائیں دماغ کا تعلق روحانی تجربات spiritual encounters سے ہے اس لیے ہمیں ڈاکٹر جل ٹیلر کی کہانی روحانیات کو طبی اور سائنسی نقطہ نگاہ سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ڈاکٹر جل ٹیلر ایک سائنسدان ہیں۔ ان کا کسی مذہبی مکتبہ فکر یا روحانی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے مشاہدات اور تجربات ایک پادری اور ایک دہریہ دونوں کے لیے یکساں قابل قبول ہیں کیونکہ وہ کسی بھی مذہبی نظریے کی پرچارک نہیں ہیں۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کے دائیں دماغ کے تجربات انسانی روحانیات کے راز جاننے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر چونکہ پیشے کے لحاظ سے ایک استاد ہیں اس لیے وہ اپنے تجربات کو اس عمدگی اور خوش اسلوبی سے بیان کرتی ہیں کہ قاری انہیں پوری طرح سمجھ سکے۔ میں ان کی کتاب میں بیان کیے ہوئے روحانیات کے چند رازوں کو اس مضمون میں بیان کروں گا تا کہ آپ کو اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔ ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں کہ ہر انسان اپنے بائیں دماغ کی وجہ سے اپنی ذات کو کائنات سے علیحدہ سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کائنات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے جدا ہے۔ جب ڈاکٹر جل ٹیلر کا بایاں دماغ مفلوج ہوا تو انہیں یہ تجربہ ہوا کہ ان کی ذات کائنات میں اور کائنات ان کی ذات میں تحلیل ہو گئی ہو۔ وہ کائنات میں ضم ہو گئیں۔ بعض ماہرین نفسیات اس تجربے کو قطرے کا سمندر میں ضم ہوجانا کہتے ہیں اور اسے oceanic feeling کا نام دیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ’اس صبح جب مجھے سٹروک ہوا تو چند ہی گھنٹوں میں میرے شعور میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اور کائنات ایک ہو گئے ہوں۔ یہ ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اس روحانی تجربے کا تعلق ہمارے دائیں دماغ سے ہے‘ ہمیں سنتوں ’سادھوؤں اور صوفیوں کی سوانح عمریوں میں ایسے تجربات کا ذکر ملتا ہے کہ برسوں کی ریاضت اور میڈیٹیشن اور چلّے کاٹنے اور تپسیا کے بعد وہ روحانیات کی اس منزل پر پہنچتے ہیں جہاں انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی ذات اور کائنات‘ جسے بعض انسان بھگوان اور یزداں کا نام بھی دیتے ہیں ’ایک ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں کہ کائنات میں ضم ہو جانے کا تجربہ نہایت پُرسکون تجربہ تھا۔ بائیں دماغ کے مفلوج ہونے کا اثر وقت کے تجربے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان کا بایاں دماغ انسان کو ماضی ’حال اور مستقبل میں فرق بتاتا ہے۔ ڈاکٹر جل ٹیلر کا جب بایاں دماغ مفلوج ہو گیا تو گزشتہ کل‘ آج اور آئندہ کل میں فرق ختم ہو گیا۔ وہ ایک ازلی و ابدی لمحہ موجود eternal now کا حصہ بن گئیں۔
ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں ’ہمارے دائیں دماغ کے لیے حال کے علاوہ کوئی اور وقت حقیقت نہیں رکھتا۔ اس کے لیے ہر لمحہ ازلی و ابدی لمحہ موجود ہے اور پر سکون ہے‘ ۔ اس تجربے کے بارے میں وہ کہتی ہیں ’میں کوئی مذہبی عورت نہیں ہوں۔ میں نے کبھی روحانیت کی منزلیں طے کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن جب میری ذات کائنات کا حصہ بن گئی اور میں ماضی‘ حال اور مستقبل سے بے نیاز لمحہ موجود میں زندہ رہنے لگی تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس تجربے سے گزر رہی ہوں جسے بدھسٹ نروانا کہتے ہیں ڈاکٹر جل ٹیلر کو نروانا تو حاصل ہو گیا اور وہ پر سکون بھی ہو گئیں لیکن چونکہ ان کا بایاں دماغ مفلوج ہو چکا تھا اس لیے وہ کئی سالوں تک اپنے ڈاکٹروں ’نرسوں اور اہل خانہ کے رحم و کرم پر رہیں۔ اگر وہ ان کا خیال نہ رکھتے اور علاج نہ کرتے تو وہ زندہ نہ رہ سکتیں۔بائیں دماغ کا ایک اور کام یہ ہے کہ وہ ہمیں سماج سے جوڑے رکھتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا خاندان اور ہمارا معاشرہ ہم سے کیا توقعات رکھتا ہے۔ وہ ہمیں نیکی بدی ’خیر و شر کا فرق بتاتا ہے۔ جب ڈاکٹر جل ٹیلر کا بایاں دماغ مفلوج ہوا تو وہ خیر و شر کے جھگڑوں سے بالاتر ہو گئیں۔ انہیں اپنی ذات اور دوسروں کی ذات نیک اور خوبصورت دکھائی دینے لگے۔ ان کے لیے اپنی ذات اور ساری کائنات سے محبت کرنا آسان ہو گیا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ سب لوگ جو اپنے دائیں دماغ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہ
۔ پُر سکون ہوتے ہیں
۔ دوسرے انسانوں کو ان کی خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں
۔ گناہ و ثواب کے جھگڑوں سے بالاتر ہو جاتے ہیں
۔ لمحہ موجود میں زندہ رہتے ہیں
اور
۔ اپنی ذات کو ساری کائنات اور انسانیت کی اکائی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر جل ٹیلر کہتی ہیں کہ مختلف مذاہب کی روحانی روایات کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان اپنی ریاضت سے اپنے دائیں دماغ کے ساتھ رشتہ جوڑیں تا کہ پُرسکون زندگی گزار سکیں۔ سنت سادھو اور صوفی تو برسوں کی ریاضت کے بعد ان روحانی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر جل ٹیلر کو ایسے تجربات ان کی بیماری کی وجہ سے ہوئے۔ ان کی بیماری نے ان کا ایسے تجربات سے تعارف کروایا جو عام حالات میں ممکن نہ ہوتا۔چند سالوں کی بیماری کے بعد جب ڈاکٹر جل ٹیلر صحتیاب ہو گئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بائیں دماغ کے کام کرنے کے باوجود وہ اپنے دائیں دماغ سے جڑی رہیں گی تا کہ پر سکون زندگی گزار سکیں۔ ان کا ہم سب کو مشورہ ہے کہ بایاں دماغ ہمیں اپنی روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے لیکن دایاں دماغ ہمیں پُرسکون زندگی گزارنے میں ممد ہوتا ہے۔ اس لیے ان تمام لوگوں کو ’جو ایک صحتمند اور پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘ چاہیے کہ وہ اپنے بائیں اور دائیں دماغ دونوں سے رشتہ قائم رکھیں تا کہ ایک متوازن زندگی گزار سکیں۔ سیکولر سائنسدان اور ماہرین نفسیات اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہمیں بتاتے ہیں کہ روحانیت ہماری انسانیت کا اٹوٹ حصہ ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply