یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔۔ثوبیہ شاہد

یہ جملہ آپ نے بارہا نہ صرف پڑھا ہوگا بلکہ استعمال بھی کیا ہوگا، اردو کی ستم ظریفی  کہ یہ جملہ اس کے محاوروں کے  ذخیرے کی زینت بنا اور ہماری ستم ظریفی یہ کہ اسے ہم نے اپنا قومی رویہ ہی بنا ڈالا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب الیکٹرونک میڈیا کے نام پر صرف پی ٹی وی میسر تھا، اخبارات اور رسائل ہی دیگر معلومات کے حصول کا ذریعہ تھے ایسے میں ہم نے جو بات بچپن  سے ذہن نشین کی وہ تھی ہر غیر معمولی واقعے کے پیچھے یہود و ہنود کی سازش ہمارے پیارے وطن  پاکستان کے خلاف، جوں جوں معلومات کے ذرائع نے ترقی کی اور دنیا گلوبل ولیج بن گئی تو دنیا بھر کے واقعات سے پل بھر میں آگاہی ہونے لگی اندازہ ہوا کہ تقریباً  پوری دنیا کو ہی اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے جیسے کہ ہمارے ملک میں ہیں وہاں بھی دہشت گردی، جنسی استحصال، غربت، طبقاتی نظام اور دیگر جرائم ہوتے ہیں فرق صرف ان واقعات کے ردعمل میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور معاشرتی رویے کا ہے۔ ہم ہر قومی سانحے  کے پیچھے کارفرما عوامل سے نظر چرا کر صرف اور صرف سازش تلاش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں جب کہ ترقی یافتہ دنیا اپنا نظام اس طرح ڈھال چکی ہے کہ وہاں تحقیقات سے لے کر مقدمے کے فیصلے تک کے پورے عمل کو متعلقہ افراد ہی انجام دیتے ہیں جب کہ  ہمارے ہاں کا ریڑھی والا بھی کسی واقعے کے پس پردہ محرکات کی بابت اپنی اٹل اور خود ساختہ رائے رکھتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے مستند ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری بد قسمتی ہے کہ ستر سال بعد بھی ہم ایسے کسی بھی نظام سے محروم ہیں جس پر ہمیں خود اعتماد ہو، ہمارے ادارے کمزور اور مفادات کے ماتحت ہیں لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ تو کام ہو ہی رہا ہے ملک میں پیش آنے والے حالیہ واقعات میں اداروں کی کمزوری کھل کر سامنے آئی کہ سوشل میڈیا سے دباؤ بنا تو کچھ ایکشن ہوا ورنہ تو دیگر واقعات کی طرح انکی خبریں بھی دب جاتیں،لیکن اب اس سے آگے ہم اپنا رویہ دیکھیں زینب امین کے کیس میں روز ایک نئی سازشی تھیوری وجود میں آرہی ہے، کوئی ایک فرد ایک نئی اطلاع کے طور پر ایک نئی انفارمیشن پیش کرتا ہے اور اس کو پڑھنے والے اپنی سیاسی وابستگیوں کی  بنا پر اسے تسلیم یا رد  کرتے ہیں، اور جو تسلیم کرلے وہ بغیر دوبارہ چیک کیے ہر جگہ اسے کاپی پیسٹ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے، امید ہے کہ اب بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ میرا اشارہ ملزم عمران کے گینگ اور بینک اکاؤنٹ سے متعلق پھیلی ہوئی اطلاعات کی طرف ہے اب چونکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اسکی تردید کردی گئی ہے تو ہمارا بس نہیں چل رہا اب یا تو    پرانے واقعات اور معاملات کا تذکرہ کر کے اسٹیٹ بینک کی دھجیاں اڑائیں یا اگر سیاسی وا بستگی مختلف ہے تو اس تردید پر خوشی کے مارے بغلیں بجائیں۔
آخر ہم کیوں ہر چیز کے پیچھے سازش کی تلاش میں سرگرداں اور ہر واقعے کو اپنی عقل کے پیرائے میں ممکنہ انجام تک پہنچ ہوا دیکھنے کے عادی ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply