یاد کا لنگر۔۔۔سید مہدی بخاری

کچورا کی جھیل کے اردگرد پھیلے جنگل میں رات اُتر چکی تھی۔ یہ نومبر کا آغاز تھا۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی جو جسم کو چیرتی ہوئی گزر جاتی تھی۔ زمین پاپولر کے خزاں رسیدہ پتوں سے ایسے سجی ہوئی تھی کہ نارنجی قالین کا گمان ہوتا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی ‘ چاندنی درختوں کے لمبے سائے بناتی پتوں سے چھَن چھَن کے اُتر رہی تھی۔ ہر قدم پر فضا میں چڑ چڑ کی آواز آتی جو پاؤں کے نیچے آنے والے خشک پتوں کی آخری ھچکی ہوتی۔ تیز ہوائیں اب آہستہ ہو چلی تھیں اور نیچے کچورا جھیل کا پانی کناروں سے ٹھہرا ہوا سا لگتا تھا جس میں چاند اور برف پوش چوٹیوں کا عکس گھُلتا جاتا تھا۔میں ایک درخت کو ٹیک لگا کر منظر دیکھنے لگا۔

ہوا میں پتے اڑے جا رہے تھے اور ذہن میں دوپہر کی باتیں گھومی جا رہی تھیں۔ کچورا کے گاؤں میں دوپہر کو پہنچا تھا۔ جھیل کے راستے میں پہلے ایک برطانوی جوڑا ملا جو جھیل سے اوپر کی طرف چلے جا رہا تھا اور چڑھائی سے دونوں کا سانس پھُولا ہوا تھا۔ رستے میں مرد نے رک کر کچھ دیر مجھ سے بات کی اور لڑکی نے پانی کی بوتل کو منہ لگائے رکھا۔ مرد بڑا خوش مزاج تھا، مجھے بتا رہا تھا کہ پاکستان کے شمال میں آنے کا پروگرام کیسے انہوں نے شادی کے فوری بعد بنایا اور اب وہ کتنے خوش تھے کہ وہ پاکستان کے شمال میں تھے۔ کچھ منٹوں کی گپ شپ کے بعد میں کچورا جھیل کے واحد ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ یہ ابرآلود دن تھا۔ تیز ہواؤں کی وجہ سےجھیل کی سطح بے چین تھی. درخت جھولتے جاتے تھے، اُن کے پتے ہر جگہ اڑے پھرتے تھے۔ ہوا اپنا راگ تیز کر چکی تھی اور پتوں کا رقص مستی کی حالت میں جاری تھا۔ ایسے موسم میں چائے پینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے خاص کر جب نظر کے سامنے ایک کھُلی نیلی جھیل ہو۔

ہوٹل میں میرے سوا کوئی نہیں تھا اور ہوٹل والا اپنے کچن میں کچھ نہ کچھ بنانے میں مصروف تھا۔ میں باہر کرسیوں پر بیٹھا ڈائری لکھ رہا تھا۔ ایک پاکستانی جوڑا اندر داخل ہوا۔ پہلی نظر میں دیکھ کر ہی پہچان گیا کہ نئی نویلی شادی کے بعد کا ہنی مون ٹرپ ہے۔ دونوں خوش شکل اور خوش لباس تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک ٹیبل پر بیٹھے دونوں نے چائے پی، فرنچ فرائز کھائے لیکن بات کوئی نہیں کرتے تھے۔ میں کیمرہ اپنے ٹیبل پر رکھے لکھنے میں مصروف تھا۔ لڑکے نے کچھ دیر بعد بولا کہ نیچے جھیل پر چلتے ہیں اور کشتی میں سیر کرتے ہیں، لڑکی نے جواب میں انکار کر دیا کہ ہوائیں تیز ہیں اور مجھے کشتی سے ڈر لگتا ہے آپ چلے جائیں۔ لڑکا اُٹھا اور نیچے کی طرف جانے لگا، اس کے پیچھے ہوٹل کا مالک بھی چلا کہ کشتی بھی اسی کی تھی ،چلانی بھی اسی نے تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنا بیزار ٹرپ کرنے کی ضرورت کیا تھی ان کو شادی کے بعد گھر ہی رہتے۔

لڑکی نیچے جھیل کی طرف دیکھے  جا رہی تھی اور اس کا شوہر کشتی میں بیٹھا جھیل کے کنارے کنارے سیر کر رہا تھا۔ میں اندازے لگانے میں مصروف تھا کہ شاید دونوں ایک دوسرے سے خوش نہیں۔ کچھ دیر اور گزری۔ اچانک وہ لڑکی بیٹھے بیٹھے بولی “آپ پروفیشنل فوٹوگرافر ہیں”۔ مجھے “پروفیشنل” کے لفظ سے چڑ ہے کیوں کہ فوٹوگرافی ایک آرٹ ہے ،ایک جنون ہے، یہ دھندہ نہیں۔ کاروباری اور جنونی میں کچھ فرق تو ہوتا ہے۔ یہ لمبی بحث ہے لیکن چڑ کے باوجود میں نے جواب دیا “جی ہاں” کیونکہ مجھے اگلی بات جاننی تھی کہ وجہ تکلم کیا ہے۔ وہ بولی “مجھے بھی بڑا شوق ہے میرے پاس بھی کیمرہ تھا اور گھر کے لان میں پھول شوٹ کرتی تھی ایک مائیکرو لینز تھا میرے پاس تو میرا شوق پھولوں اور مائیکرو ٹائپ کی فوٹوگرافی میں تھا” ۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ “ابھی آپ کا شوق نہیں رہا” تو بولی “نہیں اب شادی ہو گئی ہے وقت نہیں ملتا”۔ اس کے بعد میں نے بھی کوئی بات نہیں کی اور وہ بھی چپ رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا شوہر واپس آیا اور پھر دونوں چپ کر کے بیٹھ گئے۔ میں وہاں سے اُٹھا، سامان اُٹھایا اور نیچے جنگل میں چلا گیا۔ اب موسم کھُل چکا تھا، جنگل میں رات اُتر رہی تھی ، چاندی بکھری ہوئی تھی اور درخت سے ٹیک لگائے میں منظر کو دیکھ رہا تھا۔ ذہن میں یہ بات  گھومے  جا رہی تھی  کہ مالک انسان کی تقدیروں کے ساتھ کیسے کھیلتا ہے۔ کس مزاج کے بندے کو کیسے مزاج والا بندہ ملوا دیتا ہے اور انسان کیسے کیسے بوجھ پوری عمر ڈھوتا رہتا ہے۔ ذہن بس بک بک کرتا جا رہا تھا اور کئی چہرے نظر کے سامنے سے گزرے  جا رہے تھے۔ ایک فلم سی چل پڑی تھی یادوں کی۔ عبداللہ حسین کے بقول “انسان کی یاد کا لنگر بھی کیا عجب منظر ہے زمانے کی آمد و رفت کو مٹھی میں جکڑ کے رکھ دیتا ہے !”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply