• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب سے ختم ہوگئی ہے؟/عامر حسینی(قسط1)

کیا پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب سے ختم ہوگئی ہے؟/عامر حسینی(قسط1)

کسی بھی پارٹی کے کسی علاقے میں ہونے نہ ہونے کا ایک معیار تو اس علاقے کی قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں اس کی کتنی نشستیں ہیں ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ وہ کتنی نشستوں پر پہلے، دوسرے یا تیسرے نمبر پر رہی ہے اور ایسا کتنے عرصے سے ہورہا ہے؟ یہ تو ہوا پارلیمانی سیاست میں اس کی جڑوں کی مضبوطی اور کمزوری کی شناخت کرنے کا ایک طریقہ ۔

پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس پارٹی کی ہر ضلع، تحصیل اور سٹی اور پھر وارڈ لیول پر کیا پوزیشن ہے؟ کیا اس کی تنظیمیں فعال ہیں؟ ممبر شب ایکٹو ہے؟ پرائمری یونٹ چل رہے ہیں؟ کم از کم ضلع، تحصیل اور سٹی کے دفاتر فعال ہیں ؟ کیا اس تنظیم کی ضلعی،تحصیل اور شہر کے عہدے داران اپنے اپنے دائرہ کار میں شہریوں کے مسائل حل کرانے اور ان کے لیے آواز اٹھارہے ہیں؟
یہ ہوا جانچ کا دوسرا طریقہ

پی پی پی چونکہ اپنے تاسیسی پروگرام اور منشور کے اعتبار سے بنیادی طور پر مزدوروں ( اس سے مراد محض غیر ہنر مند دیہاڑی دار مزدور نہیں ہوتا بلکہ ماڈرن مینوفیکچرنگ، سروسز سیکٹر میں کام کرنے والے سب ہی لوگ مراد ہوتے ہیں) اور کسانوں کی پارٹی ہے تو جانچ کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنی پارٹی کی تنظیم کے کتنے فیصد اہم ترین عہدے ان دو طبقات کے ایکٹو مرد و خواتین کو دیتی ہے ؟

پھر یہ کیونکہ محنت کشوں اور کسانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے تو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے لیبر بیورو، کسان ونگ، اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، ویمن ونگ کتنے فعال ہیں اور ان میں حقیقی محنت کشوں اور کسانوں ، طالب علموں اور محنت کش طبقات کی کتنی خواتین نمائندہ ہیں؟

جانچ کے یہ چار طریقے بتائیں گے کہ پنجاب اور سرائیکی خطوں میں پی پی پی کی جڑیں کتنی کمزور اور کتنی مضبوط ہیں؟ ان سوالوں کے ایمانداری سے جوابات ہی پارٹی کی مرکزی قیادت کے لیے تلاش کرنا سب سے ضروری ہیں –

سوشل میڈیا پر پارٹی کارکن پنچایت لگانے پر مجبور کیوں ہیں؟

آج کل پارٹی کے عہدے داروں اور سابق وزیروں اور مشیروں کی طرف سے ڈسپلن کا بڑا شور مچایا جارہا ہے ۔وہ سوشل میڈیا پر پی پی پی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی طرف سے ان کی کارکردگی پر اٹھائے جانے والے سوالات کو لیکر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پارٹی کے اندر بات کی جائے-

ہمارا سوال یہ ہے کہ ‘پارٹی کے اندر’ سے ان کی کیا مراد ہے؟
کیا پارٹی کے اندر کوئی ایسا میکنزم ہے کہ ہر ضلع کے پارٹی کارکنوں سے وڈیو لنک چیئرمین صاحب اجلاس کریں اور ان سے اپنے پارٹی کے وزیروں اور مشیروں کے بارے میں پوچھ تاچھ کریں کہ کیا وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟ یا پارٹی کے چیئرمین، صوبائی صدور کے کوئی آن لائن پورٹل ہیں جہاں پر پارٹی کارکن کسی بھی عہدے دار یا وزیر و مشیر کے بارے میں اپنی شکایت درج کراسکے؟ کیا پارٹی کے وزیر اور مشیر نے کوئی پورٹل بنارکھی تھی جہاں پر جاکر کارکن اپنا مسئلہ درج کرکے اور تعمیل نہ ہونے پر پارٹی کے صوبائی یا مرکزی صدر کی پورٹل پر اپنی شکایت درج کراسکے؟

جب پارٹی کے اندر میکنزم ہی نہیں ہے اور کارکنوں کے پاس پارٹی کے عہدے داروں اور وزراء و مشیروں کی کارکردگی پر اعتماد و عدم  اعتماد کا کوئی پارٹی کے اندر ذریعہ ہی نہیں ہے تو لامحالہ پارٹی کارکن دستیاب سوشل میڈیا پر اپنی بات رکھیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ اس طرح پبلک فورم پر جب بات رکھی جائے گی تو پی پی پی کے مخالفین، بھٹوز سے نفرت کرنے والے، ان کے خلاف بغض سے بھرے لوگ اس کے تاریک پہلوؤں کو خوب اچھالیں گے، وہ اس پروپیگنڈے کو تیز کریں گے کہ پی پی پی کا پنجاب سے، سرائیکی وسیب سے، کے پی سے اور بلوچستان سے خاتمہ ہوگیا ، لیکن کیا اس پروپیگنڈے کے تیز ہونے کے ذمہ دار پی پی پی کے کارکن، حمایتی ، ووٹر ہیں؟ نہیں بلکہ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار نا اہل، نکمے اور بے کار پارٹی عہدے دار ، وزیر ،مشیر ہیں جو پارٹی کے اندر خود احتسابی اور جانچ کے کسی میکنزم کو بنانے نہیں دیتے جس کے سبب پارٹی اور اس کی حکومت یا اپوزیشن میں کارکردگی پر سوشل میڈیا پر پنچایت لگ گئی ہے ، اس پنچایت کو طعنے اور اعتراضات اور ڈسپلن کی دہائی دے کر ختم نہیں کیا جاسکتا-
جاری ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply