قاری کا اخلاقی نظام اور تاریخ/یاسر جواد

اخلاقیات کو اقدار کا ایک نظام کہا جاتا ہے۔ فلسفۂ اخلاق میں قدروں کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ اِس میں شاید اچھائی اور برائی، درست یا غلط، انصاف اور انسانیت کی قدریں شامل ہیں۔ کوئی اور شخص اخلاقیات کی تعریف شاید اور کرے۔

 

 

 

 

 

 

 

انگلش میں ethics خارجی یا معاشرتی قدریں ہیں، اور morals داخلی یا ذاتی قدریں۔ ethics وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اور morals کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ تبدیل نہیں ہوتے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بہرحال دونوں کا تعلق درست اور غلط، اچھے اور برے کے اصولوں سے ہے۔ اردو میں ہم دونوں کو اخلاقیات اور اخلاق کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پڑھنے والوں کا ایک اپنا اخلاقی نظام یا دائرۂ کار ہوتا ہے جس کے مطابق وہ تحریر کو متواتر جانچتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ پڑھنا ایک اخلاقی عمل ہے۔ جس میں قاری اپنے اخلاقی معیار لاگو کرتا رہتا ہے۔ (آڈیو میں یہ چیز ماند پڑ جاتی ہے اور پوری گرفت میں نہیں آتی)۔ قاری اپنے دیکھے اور تجربہ کردہ مناظر کو بھی داخل کرتا ہے، اور یہ عمل نہ صرف ادب و شاعری بلکہ تاریخ پڑھنے کے دوران بھی واقع ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ہم حالتِ محبت یا حالتِ مایوسی میں ہوں تو کوئی محبت کی نظم یا ویٹنگ فار گوڈو کہانی ہمارے لیے زیادہ پرکشش ہو جاتی ہے۔ فتح، کامیابی اور خوشی کے عالم میں کسی تحریر کا سارا اخلاقی نظام بدل جاتا ہے۔ لہٰذا قاری کی اپنی اخلاقی حالت متن کے معنی اخذ کرنے میں اثر رکھتی ہے۔
یہی عمل تاریخ پڑھتے ہوئے بھی ہوتا ہے۔ ہم اپنے تصور کردہ کرداروں کو، عقائد اور ہیروز، جگہوں اور چیزوں کے متعلق پڑھتے ہوئے اخلاقی رنگ دیتے ہیں۔ مثلاً کسی ناول میں بغداد کا منظر ہے تو ہمارے تصور میں بچپن میں الف لیلہ کے دیکھے ہوئے ڈرامے شامل ہوں گے۔ ماں باپ کی کردار کشی ہو گی تو ہم اپنے تجربے کی روشنی میں پرکھیں گے۔ برطانوی لوگ ہندوستان کو ہندو یوگیوں اور سنیاسیوں کے رنگ میں دیکھتے ہیں اور ہم اپنے ٹی وی ڈراموں کے تناظر میں۔ اِسی طرح چنگیز خان، اکبر اعظم، اورنگ زیب، تیمورلنگ کے متعلق ہماری فلمیں، ڈرامے، جعلی تاریخی کتب، مطالعہ پاکستان اور ہیرلڈ لیم وغیرہ کی تحریریں پہلے سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ اور ہمارا اخلاقیات کا ایک ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے۔
نیز ہر علاقے اور قوم کے لوگ اپنے خطے کو اہم ترین سمجھتے ہیں اور اُس کا ذکر ایک خاص اخلاقی محبت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے گوگل میپ آنے پر آپ اپنے گھر کی چھت دیکھ دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے یا ورڈ کے سپیچ فیچر سے اپنا نام بلوایا کرتے تھے۔
ول ڈیوارنٹ کو پڑھتے وقت آپ کا اخلاقی نظام چیلنج نہیں ہو گا، لیکن خود بخود مسمار ہو جائے گا۔ یہ اُس کی خوب صورتی اور تاثیر ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ اچھے اور برے، درست اور غلط کی تعبیر کے قابل نہیں رہیں گے، بلکہ یہ ہے کہ آپ کے اخلاقی نظام میں اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی کہ آپ آسان قطعی پن سے باہر نکلیں گے اور عالمی و تہذیبی سطح پر اُسی طرح چیزوں کو جانیں گے جیسے اپنی زندگی کے مختلف اور متضاد پہلوؤں کو بغیر قطعی فیصلہ دیے جانتے ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply