مایوسی سے بچنے کی تیاری کی جا سکتی ہے؟/یاسر جواد

بہت مایوس کن ہیں، مالی بحران ہے، اعتماد کی کمی ہے، مواقع دستیاب نہیں، جینے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی مگر جیے جانا مجبوری ہے۔ کیونکہ اِس کے سوا کوئی راہ نہیں۔ کہیں کوئی روشنی کی کرن نظر بھی آتی ہے تو جھوٹ نکلتی ہے۔ خوشیاں بغلوں سے چھدی ہوئی پرانی مہنگی قمیضوں کی طرح ٹرنکوں میں پڑی ہیں۔ دکھ کے دستانے ہر چیز کسی لمس، کسی حدت، کسی ٹیکسچر کو محسوس نہیں ہونے دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کو یہ اپنی زندگی کا بیان لگتا ہے۔ لیکن یہ اور بھی لاتعداد انسانوں کی زندگی کا بیان ہے۔ اور ہر پشت، ہر نسل، ہر زمانے میں ایسے انسان آتے رہے ہیں۔ آپ اور ہم اُن سے مختلف نہیں۔ اُنھوں نے حل بھی نکالے، کچرے میں سے کھانا تلاش کر کے کھایا، ایٹم بم میں اپنی جلد گنوائی، گھروں کی چھتوں پر گولے سہے، دریاؤں میں بہے اور ایک ایک فصل ناکام ہونے پر لاکھوں کی تعداد میں مرے۔
اوپر دیا گیا بیان 1990ء میں دور درشن کی بنائی ہوئی فلم یا طویل ڈرامے ’’تھوڑا سا رومانی ہو جائیں‘‘ کا بھی ہے جس میں مرکزی کردار ناناپاٹیکر نے ادا کیا۔ (ویسے تو یہ کیتھرین ہیپ برن کی 1956ء میں بننے والی مووی Rainmaker کی نقل ہے، لیکن کمال نقل ہے۔) زندگی کی طرح مووی کے ڈائیلاگ بھی دو سطحوں پر ہیں۔ ایک تو معمول کی بے رنگی ہے، اور دوسری باطن کی آواز جو شاعرانہ رنگ میں ہے۔
ہمارے جیسے ایک گھرانے میں ریٹائرڈ باپ، جوان غیر خوب صورت اور رشتوں کی آمدورفت سے تنگ آ چکی بیٹی، دھونس جمانے والا اور قطعیت کا شکار بڑا بھائی اور نادان مگر زندگی سے قریب تر چھوٹا بھائی رہتے ہیں۔ سوکھا پڑا ہے، خوشیوں اور اُمید کا سوکھا، زندگی کا بانجھ پن، بالکل پاکستان جیسا۔
میرے خیال میں بڑھی ہوئی نااُمید میں آپ کو اپنے ساتھ جھوٹ بولنا پڑتا ہے، خواب بننا پڑتے ہیں، اور اُن خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنی حد تک جدوجہد کا ناٹک رچانا پڑتا ہے۔ آخر سارے ناٹک ہماری ادھوری یا پوری نہ ہو سکنے والی امیدوں اور خواہشات کا علاج ہی تو ہوتے ہیں۔ فلم میں بھی اچانک ایک آوارہ سا آدمی رات کے وقت گھرانے کی زندگی میں شامل ہو جاتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ پانچ ہزار روپے میں بارش کر دے گا۔ وہ اپنی بظاہر لایعنی حرکتوں سے سب گھر والوں کا دھیان بٹا دیتا ہے۔ وہ شاعری ہے، اور اُمنگ بھی جس سے جان چھڑوانے کا واحد حل خود کشی ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو نئے گُر سیکھنا ہوں گے۔ گریہ اور ماتم اپنی جگہ، جو میں بھی کرتا رہوں گا اور آپ بھی۔ لیکن زندگی ویسے نہیں چل سکتی جس طرح ہم دو چار سال پہلے تک جیتے آئے ہیں۔ ہم سب کو ایک ایک بارش گر چاہیے، اور آخری سانس تک زندگی گزارنے کا ایک بامعنی اور تخلیقی بہانہ جو شاید آنے والوں کو بتا سکے کہ یہاں کبھی ہمارے نام کا کوئی شخص بھی گزرا ہے جو محض ایک چوہا نہیں تھا۔
خصوصی ناامیدیوں اور خاص معاشروں میں خصوصی اور خاص اقدامات درکار ہوا کرتے ہیں۔ اپنی مایوسیوں میں دوسروں کی مایوسیوں اور کامیابیوں کا ذکر پڑھیں اور سنیں۔ بارش گر آس پاس ہی موجود ہوں گے/گی۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply