مظہر الزماں خان کا علامتی نظام/شاہد عزیز انجم

حید ر آباد (ہندوستان ) سے تعلق رکھنے والے ،مظہر الزماں خان اُردو فکشن کا ایک معروف نام ہیں ۔ یہ علامتی اور ایک مشکل پسند افسانہ نگار ہیں ۔ ان کی کہانیوں اور ناولوں میں اشارے، استعارے ، علائم اور فلسفہ ایک عجیب و غریب انداز میں دکھائی دیتے ہیں ۔ جملوں کی ساخت بھی معاصر افسانہ نگاروں سے منفرد ہے ۔ذیل کے چند جملے اس بات کے شاہد ہیں :

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

”میں مظہر الزماں اپنے تعلق سے ایک اہم اعلان کرتا ہو ں کہ نہ میں کہانی کارہو ں، نہ ناول نگار ہوں ، نہ سوانح نگار ہوں اور نہ ہی ڈراما نگار ہوں ۔ میں تو صرف اور صرف کراماً کاتبین ہوں ۔ اور زمینوں ، موسموں ، انسانوں اور جانوروں کے اعمال اور حالا ت ہی قلمبند کرتا ہوں کیوں کہانی کار ، ناول نگار تو وہ ہوتے ہیں جو کہانیوں ، ناولوں اور ڈراموں میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور زمینوں ، زمانوں ، انسانوں ، جانوروں اور موسموں سے وہی کچھ کرواتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ وہ دراصل کٹھ پتلیوں کا کھیل کھلانے والے ہوتے ہیں ۔ بہر حال میں ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ میں نہ کہانی کار ہوں ، نہ ناول نگار ہوں ، نہ ڈراما نگار ہوں اور نہ مصنف ہوں ۔ میں تو صرف تو صرف کراماً کاتبین ہوں ۔ “
مذکورہ بالا اشارتی تعارف اس با ت کا غماز ہے کہ مظہر الزماں خان کی تخلیقات میں اشارے ، استعارے ، علائم مختلف نوع سے ظاہر ہوتے ہیں۔ شاید اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر آغا نے لکھا تھا کہ ”مظہر الزماں کا فن مہا بیانیہ کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ایسے انوکھے اور منفرد تجربات کو سامنے لا رہا ہے جس کا ذائقہ سے شاید ہی اردو کا کوئی اور ناول نگار یا افسانہ نگار اتنی شدت کے ساتھ آشنا ہوا ہے ۔“
مظہر الزمان خاں کی اب تک سات کتابیں شائع ہو کر مقبولیت کا درجہ پا چکی ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “ہارا ہوا پرندہ” 1976 میں شائع ہوا۔ اس کے 10 سال بعد ان کا ناول “آخری زمین” 1986 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا ناول “آخری داستان گو” 1994 میں شائع ہوا. یہ ناول ان کا اب تک کامیاب ترین ناول رہا۔
مظہر الزماں خان کے ناول ہوں یا افسانہ، کسی بھی تخلیق کو پڑھیے ایک پراسراریت قاری کے ساتھ چلتی رہتی ہے اور قاری عرشی و فرشی نظریات، وقت و حالات، انسانی وجود، اصول و افکار، اشاروں میں کائنات اور اس کے وجود کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اسے یوں لگتا ہے کہ یہ کائنات اس میں بہنے والی تمام اشیاء ایک خوبصورت خواب کی صورت لیے ہوئے ہیں۔ جس میں قوس قزح کی رنگینی بھی ہے اور زمین اور موسموں کی بوباس بھی۔
جہاں تک ان کی افسانوں کا تعلق ہے چند ایک کا مختصر تجزیہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری مظہر الزمان خان کے فن کو سمجھنے میں دِقت محسوس نہ کریں۔ ان کا ایک افسانہ “زمین پر ٹھہری ہوئی رات” ہے۔ اس افسانے میں مظہر الزمان خان نے لکھا ہے کہ “ہمارے ملک اور پڑوسی ملک دونوں کو آزادی آدھی رات کو ملی اور اس کی صبح، آزادی کے کئی سال کے باوجود، دونوں زمینوں کے رہنے بسنے والوں کو نصیب نہ ہو سکی۔ اس افسانے میں مظہر الزمان خان نے مرغ کی بانگ، صبح کی آمد، پرندوں کی چہچہاٹ، ناخن کا کھوجنا، تھوہڑ کے درخت سے زخمی بلی کی چھلانگ اور دور سے بین کرنے والی آوازوں کو کچھ اس قدر مؤثر انداز میں بیان کیا ہے کہ ساری کہانی دکھائی دینے کے باوجود اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک اس کہانی کے باطن میں اتر کر کہانی کو کھلی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے۔
ان کی ایک اور کہانی “سنوانح حیات” ہے. اس کہانی میں انہوں نے پورے مسلم معاشرے کو ایک” اونٹنی” کی زندگی کے طور پہ پیش کیا ہے۔ یعنی ساری قوم اس اونٹنی کی طرح ہے جو خود سے غافل, اپنے معاشرے, اپنی تہذیب, اپنے زمانے, اپنے حالات, اپنی زندگی, اپنی روایات اور نہ صرف لمحے موجود سے ناواقف ہے بلکہ خود اپنی موت سے بھی غافل ہے۔ “اونٹنی” کا استعارہ پوری مسلم دنیا کا استعارہ بن گیا ہے۔
” ہارا ہوا پرندہ” کرب انگیز وجود کی ایک داستان ہے جو فردِ واحد کے کرب کو پورے انسانی وجود کے طرز پر بیان کرتی ہے۔ یہ افسانہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اپنے تئیں دنیا کے اِس پر اسرار جنگل میں اپنے ضمیر کی روشنی میں گھوم رہا ہے۔ دھوپ کا چلکا، ضمیر کی وہ روشنی ہے، جو انسان کے ازلی وجود میں شامل ہے اور جو اس روشنی کو حاصل کر لیتا ہے وہ اپنے اصل کو حاصل کر لیتا ہے۔ اس افسانے میں تصوف کی راہیں اور سلوک کا راستہ پوشیدہ ہے۔
” زمین اے زمین” ایسے دو بھائیوں کی کہانی ہے جو ایک جان دو قالب ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی صوف صفت ہے جو توکل باللہ ہے۔ دنیاوی چیزوں کو حقیر سمجھتا ہے، وہ کچھ نہ کھا کر بھی توانا نظر آتا ہے۔ اس کی نظر اپنے قلب پر رہتی ہے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اپنے قلب سے دیکھتا ہے۔ تمام دنیاوی راستے اس کی کوشش کے باوجود اس کے اندر نہیں اتر سکتے، صرف باہر رہتے ہیں۔ ہوائیں، موسم، زمین، حالات اور ماحول اس کے ظاہر کو چھو کر گزر جاتے ہیں گویا وہ آخری یقین کی منزل پر نظر آتا ہے۔ دوسرا بھائی اپنے بڑے بھائی کا عقیدت مند ہے اور اسے اپنے اندر رکھتا ہے۔ جب وہ ایسی زمین پر پہنچتا ہے جس کی تاریخ دنیا کی نظر میں مسخ ہے دفعتاً اس کے سارے نظریات، عقائد، اصول اور محبت یک لخت ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے بڑے بھائی پر برحم ہو جاتا ہے اور بھائی کی وہ گٹھڑی جو اپنے سر پر اٹھائے رکھتا ہے پھینک دیتا ہے۔ یہاں مظہر الزماں خان نے زمین کے “مزاج” کو پیش کیا ہے کہ بعض زمینوں کا “مزاج” ہی ایسا ہے۔
محمود ہاشمی لکھتے ہیں:
“مظہر الزمان خان کا فکشن، داستان، اسطور اور علامتی اظہار کے امتزاج سے ایک ایسی تخلیق کو مجسم کرتا ہے جس میں روشنی اور مفاہیم کے بے پناہ سرچشمے موجود ہوتے ہیں فکشن کو عام نثری بیان سے مختلف بنانے کے لیے اِسی معیاری اسلوب کی ضرورت ہے جو آج کے تقریباً سبھی افسانہ نگاروں کی دسترس سے نکلتا جا رہا ہے۔”
مظہر الزماں خان کی اکثر تخلیقات میں مسلسل تحریک اور حرکت کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ اور یہ تحریک اپنے ساتھ حال، ماضی اور مستقبل کی تصویروں کے ساتھ ساتھ مناظر، خیال اور پیکر کی شکل میں ڈھل کر پھیل جاتی ہے۔
ان کے مزید دو افسانے ” ارضِ حال اور آخری دستخط” سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں اور ان کے اسلوب کی معراج دیکھیں:
“لاکھوں کروڑوں انسانوں اور جانوروں کے مسلسل رونے کی آواز سے چونک کر جب میں ایک جھرجھری لے کر گہرے لمبے خواب سے بدک کر بیدار ہوا تو رونے اور بین کرنے کی ساری آوازیں یک لخت غائب ہو گئی تھیں کہ سب چراغ بجھ گئے تھے اور بھیگی بھیگی فجر میرے سرہانے کی آہنی کھڑکی سے آہستہ آہستہ اتر رہی تھی۔” ( ارضِ حال)
” وہ سب کی سب چادریں چھینی ہوئی وہ بوسنیا کی عورتیں تھیں، جو اپنی کھرچی ہوئی رانوں اور اپنے ورم زدہ گھٹنوں کے درمیان اپنے حیا دار سر ڈال کر اپنی اپنی شرمیلی زمینوں پر ابلیسوں کی جبراً تخم ریزی کو زیر و زبر کرنے کے لیے اپنی اپنی کوکھ سے چاروں سمتوں کو بلا رہی تھیں۔ لیکن چاروں سمت کے خود ساختہ سفید زادے اپنی اپنی ننگی مسندوں پر بیٹھے ڈھولک بجا بجا کر میراثیوں کی طرح لہک لہک کر مسلسل گیت گانے میں مشغول تھے۔” ( آخری خط)
شمس الرحمن فاروقی ، وزیر آغا ، گوپی چند نارنگ ، وارث علوی، باقر مہدی کاشمیری، قاضی افضال حسین ، انور سدید، شمیم حنفی اور مہدی جعفر جیسے ناقدین نے بھی مظہر الزمان خان کے فن کو سراہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply