تنہائی کا خالی سینہ اور باشک ناگ کا دل(2،آخری قسط)۔۔سیّد محمد زاہد

اس نے جواب دینے کی بجائے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔

کاجل نے بات جاری رکھی ”تمہارے میری بہن سے تعلقات کب بنے؟“

”اس کا جواب دینا ضروری ہے؟“ وہ استفساریہ لہجے میں بولا۔

اسے افسردہ دیکھ کر پھر کہنے لگا ”تم نے بڑی پر رونق جگہ پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہاں تمہیں کوئی اچھا ساتھی مل جائے گا۔“ 

”ابھی تو میں نے سوچا بھی نہیں۔ لیکن تمہیں کیا ملا؟ وہی میرے جیسی میری بہن۔ تم نے کوئی رنگ رس بھری ضیافت نہ اڑائی۔ وہی ایک رکابی   باسی طعام  اور بس۔“

وہ طلاق دے کر چلا گیا۔

اس سے اگلے ہفتے ہی کاجل نے ایک گاہک سے مجامعت کی۔

اس کی عمر کم و بیش تیس سال ہوگی۔ اسے خوبصورت تو نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن کاجل کو بھاتا تھا۔ کیفے میں کئی بار آچکا تھا۔ ہمیشہ ایک بھدی سی موٹی عورت کے ساتھ جو بے اندازہ میک اپ تھوپے لجاتی بل کھاتی کنواری چال چلنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ بڑے ٹھسے سے میز پر بیٹھ کر حکم چلاتی۔ دونوں میں سخت الفاظ کا تبادلہ بھی جاری رہتا اور پیار محبت کی باتیں بھی۔ اکثر چھٹی سے پہلے والی رات آتے۔ نوجوان جوڑوں کو تاڑتے رہتے۔ ان کی باتیں اور حرکتیں جنسی انگیخت اور بھاؤ تاؤ کو واضح کرتی تھیں۔ کبھی بھی زیادہ دیر نہ ٹھہرتے۔ کاجل سوچتی تھی کہ ملاپ کی رات وہ اکساؤ کو بڑھاوا دینے باہر نکلتے ہیں۔

کاجل ان سے دور ہی رہتی۔ ملازم ہی انہیں خدمات مہیا کرتے۔ کبھی کبھار  وہ خود اسے بلاتے۔ لیکن جب وہ مرد سے بات کرتی تو موٹی عورت تیوریاں چڑھا لیتی۔ 

اس رات وہ مرد  اکیلا ہی کیفے آیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور گاہک بھی کوئی نہیں تھا۔ کیفے بند ہی کرنے والی تھی کہ وہ آتا دکھائی دیا۔ دروازہ بند ہوتے دیکھا تو واپس چل پڑا۔ کاجل نے اسے آواز دی۔ وہ صرف  ایک کپ کافی لینا چاہتا تھا۔ کافی بنا کر لائی تو کہنے لگا ”آج وہ قسی القلب مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی۔“ کاجل نے دیکھا اس کے چہرے پر نچنے کے نشانات تھے۔ ہاتھوں کی دریدہ پشت ساری کہانی بیان کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے پوچھ لیا ”یہ کیا ہوا؟“ 

”اس کی عادت ہے۔“ کہہ کر اس نے اپنی جیکٹ اتار دی ۔ منہ دوسری طرف کیا اور قمیض بھی اوپر کر دی۔  ساری کمر پر نئے پرانے زخموں کے نشانات تھے۔  کچھ سے ابھی بھی خون رس رہا تھا۔ وہ حیران ہو کر بولی

”نشانات تو ایسے لگتے ہیں جیسے زنجیر زنی کی گئی ہے۔“ 

”ہاں، وہ جذباتی ہو کر ناخنوں سے میری کمر زخمی کر دیتی ہے اور پھر ہر بار اسی جگہ کو کھرچتی ہے۔ نیا زخم بن جائے تو اس پر شامت سوار ہو جاتی ہے۔“  پھر وہ سیدھا ہوا تو سامنے سینے پر بھی نشانات موجود تھے۔ آگے بڑھ کر ان  کو سہلانے لگی تو اس نے کاجل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہاتھ کی گرمی ایسی تھی کہ اگلے ہی لمحے وہ اس کی گود میں تھی۔  

پھر وہ اوپروالے کمرے میں آگئے۔ بیڈ تک پہنچنا بھی محال دکھائی دے رہا تھا۔ پیار نہ مساس، اس نے کاجل کو اٹھا کر بیڈ پر پھینک دیا۔ باہر بارش زور و شور سے برس رہی تھی اور اندر بھوگ بلاس کی سمٹی ہوئی سسکیوں کی پھنکار تھی۔ وہ سدھ بدھ کھو چکی تھی لیکن بے ہوشی میں بھی ہاتھوں کی جلتی پوریں زخموں کو سہلا رہی تھیں۔ ہوش تب آیا جب اس نے کاجل کو نیچے سے نکال کر اپنے اوپر بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی۔ 

وہ کب گیا؟ اسے کچھ خبر نہیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی چھاتیاں تھامے  بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی اور اس کے کان دھپ دھپ کی گونج سے بہرے ہو گئے تھے۔ 

کچھ دنوں کے  بعد وہ آیا تو موٹی بھدی عورت اس کے ساتھ تھی۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور واپس چل دیے۔  پھر ان کا پرانا معمول بحال ہو گیا۔ کاجل کی کوشش ہوتی  کہ ان کی موجودگی میں کچن کے اندر ہی رہے۔ وہ آدمی اگر کبھی اس سے بات کرتا تو اسی لہجے میں جیسے اس رات کچھ ہوا ہی نہیں۔

پھر بلا بھی غائب ہو گیا۔ گرچہ ابھی تک اس نے بلے کو کوئی نام نہیں دیا تھا لیکن وہ اس کی عادی ہو چکی تھی۔ یہ اس کی خوش گمانی تھی یا وشواس کہ بلا اس کے لیے خوش بختی لے کر آیا تھا۔ ایک دو دن پہلے اسے ایک بلی شور مچاتی دکھائی دی تھی۔ اسے پتا تھا اب وہ ہفتہ دس دن واپس نہیں آئے گا لیکن جب بلے کو غائب ہوئے تین ہفتے ہو گئے  تو فکر مند ہوئی۔  

اسی دن کاجل کو سامنے پارک میں بوڑھے پیڑ کے نیچے ایک سانپ نظر آیا، لمبا گہرے بھورے رنگ کا، جو اسے دیکھتے ہی غائب ہوگیا۔ اس علاقے میں سانپ نہیں پائے جاتے۔  وہ اسے اپنا وہم ہی سمجھتی اگر دو  دن بعد اسی جگہ پر ایک اور نہ دیکھ لیتی۔ یہ اس سے چھوٹا تھا اور کالے سیاہ رنگ کا۔ کچھ دن بعد اس نے صبح کیفے کا دروازہ کھولا تو ایک سانپ پھن کاڑھے سامنے بیٹھا اسے گھور رہا تھا۔ اب کی بار وہ بہت خوفزدہ ہوئی اور بھاگ کر اوپر چلی گئی۔ ایک ہفتے میں تین مختلف سانپوں کا نظر آنا عجیب بات تھی۔ اس نے اپنی خالہ کو فون کیا۔  جواب سن کر وہ مزید پریشان ہوگئی۔ ” میں ایک لمبا عرصہ یہاں رہی ہوں، میں تو کبھی کوئی سانپ نہیں دیکھا۔“  

مزید کریدنے پر کہنے لگی ”سانپ اور دیگر حشرات الارض قدرتی آفات کو بھانپ لیتے ہیں۔ اساطیری داستانوں میں سانپوں کی اس حس کا خصوصی طور پر ذکر ہے۔ یہ لوگوں کے مددگار بھی ہوتے ہیں لیکن انسان ان کا رمز آشنا نہیں ہوتا۔ ان کے کنائے مبہم ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ یہ انسان کو بہکا بھی دیتے ہیں۔ ان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔“

”مبہم اشارے؟ پھر میں کیا کروں؟“ کاجل نے پوچھا۔

”ان داستانوں میں بیان کیا گیا ہے کہ عیار فتنہ برداز سانپ اپنا دل نکال کر کسی خفیہ جگہ پر چھپا دیتا ہے تاکہ اسے مارا نہ جاسکے۔ اگر انسان اس کو مارنا چاہتا ہے تو اس دھڑکتے ہوئے دل کو ڈھونڈھ کر دو حصوں میں کاٹنا پڑے گا۔  تم ان کا دل نہیں ڈھونڈ پاؤ گی۔ یہ ناگ اب تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ بہتر ہے کہ تم محتاط ہو جاؤ۔“

اس رات کیفے بند کرتے وقت اس نے دروازے میں بلے کی گزرگاہ کو لکڑی لگا کر بند کردیا۔ رات بھر کاجل کو یوں محسوس ہوتا رہا جیسے سانپوں نے اس کے گھر کو گھیر رکھا ہے۔ ہر  طرف ان کی پھنکار سنائی دے رہی تھی۔   

اگلے دن سر شام ہی ساغر آگیا۔ 

کاجل کو اس کی موجودگی میں کچھ حوصلہ ہوا تو اس کے ٹیبل پر  پہنچ گئی۔ ساری بات اس نے دھیان سے سنی اور فوراً ہی فیصلہ دے دیا۔ 

”تمہیں اب یہ کیفے بند کرنا پڑے گا۔ چاہے صرف عارضی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔“ 

کاجل اسے گھور کر دیکھ رہی تھی۔

”کیفے بند کردوں، کیوں؟“

”مجھے یہ کیفے بہت پسند ہے لیکن اس میں کچھ کمی سی ہے۔ تمہاری میوزک  سلیکشن  بہت اچھی ہے۔ ہلکی موسیقی اس خاموش ماحول میں دل کو بہت بھاتی ہے۔ 

لیکن یہاں کچھ کمی سی  ہے۔“ 

اس نے پورے کیفے میں نظر دوڑائی۔

”دیواریں کھانا، میوزک سب کچھ ٹھیک ہے۔ اس کمی کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ شاید یہ تم سے ہی متعلق ہو۔“

کاجل نے خود پر بھی نظر دوڑائی۔ وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ 

”بہر حال اب تمہیں یہاں سے جانا پڑے گا۔ جب حالات بہتر ہونگے میں خود تمہیں بتا دوں گا۔“ 

”میں کہاں جاؤں؟“ 

”کسی بھی جگہ لیکن کسی کو بھی بتلائے بغیر۔ مجھے بھی نہیں۔“

”پھر تم سے رابطہ کیسے ہوگا؟“ 

”تم جہاں بھی جاؤ، ہر جمعرات کو اس علاقے کی کوئی تصویر مجھے بھیج دیا کرنا۔ لیکن اس سے اگلے ہی دن تمہیں اس علاقے کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔“ 

”تم رابطہ کیسے کرو گے۔“ 

”میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا۔“

اگلے روز اس نے شہر چھوڑ دیا۔ 

اب وہ چلتی جارہی تھی گاوں گاوں  شہر شہر۔ وہ کچھ نہیں جانتی تھی کہ کب تک در بدر گھومنا پڑے گا۔ ہدایات کے مطابق وہ تصویر بھیجتی اور اگلے شہر چلی جاتی۔ 

چھوٹے چھوٹے شہروں میں تاکہ جب وہ ڈھونڈنے نکلے تو آسانی سے مل سکے۔ 

کئی ہفتے گذر گئے۔ جمع پونجی ہوٹلوں کے اخراجات میں اڑ گئی۔ آج وہ سستے ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔ بند کمرے میں تنہائی کا زہر پھیلتا جا رہا تھا۔ ساری رات بارش ہوتی رہی۔ پو پھٹ گئی تو ناسور زدہ رات سے زمردگوں زہر پھوٹ پڑا تھا۔  یہی زہر پوری زندگی کو دکھی کر گیا تھا۔ وہ اپنے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب جب خوشی ملی  قرحہ دار زندگی سے بحر خون و ریم ہی رواں ہوا۔ 

ہر کام میں ناکامی! محل جیسا گھر تھا، افسری تھی، سب گیا۔  بلا بھی ساتھ چھوڑ گیا۔ اب کیفے بھی۔ ساغر نے بھی کہہ دیا یہاں سے چلے جاؤ۔ اس نے کسی جگہ بھی اپنا حق نہیں جتلایا۔ صرف برداشت کیا، کسی کو تکلیف نہ دی۔ اس کی قسمت میں ناکامیاں ہی لکھی تھیں۔ اسے زندگی نے کچھ بھی نہ دیا۔ وہ یسوع کی طرح مصلوب ہوئی لیکن اپنے دکھ کا مسیحا نہ بن سکی، سدھارتھ کی طرح محل چھوڑ آئی لیکن گوتم والا نروان نہ ملا، رادھکا کی طرح کرشن کی جدائی کا کشٹ کھینچ رہی ہے لیکن آتما اننت مہاتم نہیں پاسکی۔

یہی سوچتے سوچتے نیند آگئی۔ 

پتا نہیں کب تک سوتی رہی۔ شاید پورا دن ڈھل گیا۔ آنکھ دستک کی آواز پر کھلی۔ ”کوئی ہوٹل کا ملازم ہی ہوگا خود ہی چلا جائے گا۔“ یہ سوچ کر لیٹی رہی۔ دوبارہ دستک بھی نہ ہوئی۔ اس کا سینہ جل رہا تھا۔ اندر سے دل کے چلنے کی آواز رہی تھی۔ اس کے اپنے دل کی؟ 

”نہیں۔“ 

وہ زور سے چلائی۔ یہ تو خالی جگہ تھی اس میں باشک ناگ نے اپنا دل چھپا رکھا ہوگا۔ وہ دھڑک رہا ہے۔ بارش پھر شروع ہو گئی۔ کھڑکی کے شیشے پر بوندیں دھپ دھپ برس رہی تھیں۔ وہی دھپ دھپ جو چھاتیوں کے آپس میں ٹکرانے سے، اوپر نیچے کی حرکت سے،  ذقند بھرنے سے، پیٹ پر ٹکرانے سے، گونجی تھی۔ وہ اٹھی زور سے کھڑکی کو مکا مارا۔ 

”ہاں! مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ تھوڑی یا زیادہ نہیں، بہت زیادہ۔“

وہ رونے لگی۔ رونے سے  اس کے مضمحل شعور میں اعتدال آگیا۔ تحت الشعور سے لاشعور تک جتنے پردے تھے، سب اٹھ گئے۔ 

اس نے اسی وقت ہوٹل چھوڑ دیا۔ اور اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

(ماخوذ)

 

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply