انسانیت اس وقت متزلزل ہے۔ تعصبات اوڑھے ہوئے ہے۔ ہزاروں سمجھوتے کیے جاتے ہیں اور گاڑی چل پڑتی ہے لیکن جب لاش گر جائے تو سکوت طاری ہونا بنتا ہے اور جب لاشوں کی لاشیں گرا دی جائیں اور حقارت سے بچوں کی تضحیک کی جائے تو دلائل کا انبار بھی لگ جائے ایک انسانی جان کے مد مقابل صفر سے ضرب دینے کے مترادف ہے۔ یہ کسی ایک خطے کی تباہی نہیں ہے اور یہ کسی ایک گروہ کی بزدلانہ بدمعاشی نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کی بالمجموع ناکامی ہے۔ کوئی دلیل بچوں کے تبسم پہ بھاری نہیں ہے۔ کوئی دلیل حق زندگی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مزید تشویش ناک صورتحال ظلم و ستم و استہزاء کی قبولیت (normalization) ہے۔ انسانی قدریں ظالم کے ہتھے چڑھ گئی ہیں۔ دنیا کو قریب ہونا چاہیے اور انسانیت کی بھلائی کے لیے بہتری اور بڑھوتری اور ترقی (collective progress and growth) پہ بات کرنی چاہیے اور آپسی چپقلش ختم ہونی چاہیے جیسے خیالات کو خدشات پڑ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی جابرانہ پامالی انسانیت کا زوال ہے اور مجموعی طور پہ انسانیت کی گاڑی بیٹھ چکی ہے! زندگی تو گزر جاتی ہے اور یہی زندگی کی تعریف ہے کہ یہ رکتی نہیں ہے لیکن رخنے جو ڈال دیے گئے ہیں پھیکا پن ہے اور پھیکے پن کے ساتھ جینا یا گزارنا ایک برابر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں