برف کا ایک دن/قمر رحیم

تین دن گزر گئے تھے صبح ہوئی تھی ، سورج نکلا تھا ، نہ دن چڑھا تھا۔ بادلوں کی گرج چمک تھی، بارش تھی، ہوا تھی اور سردی تھی۔ہم چار بہن بھائی تھے، اماں تھی ، دادی تھی اور ہمارا “اندرلے اندر “تھا۔”گوال ” میں دو بھینسیں ، ایک کٹّی ، ایک بیل اور ایک گائے تھی۔بھیڑوں کی کوٹھڑی میں تین بھیڑیں، ایک “ہنڈُو”اور ایک “لیلی” تھی۔ بھیڑوں کی کوٹھڑی کے باہر والی پاساری “ڈسلوں” سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی کُتے کی کوٹھڑی میں کُتا گھاس میں ڈوبا ، سمٹا ہواتھا۔ ہم جب لکڑیوں کے “سنجے” سے لکڑیاں نکالنے جاتے تو وہ لیٹے لیٹے ہی اپنی لال لال آنکھیں کھول کر ہمیں دیکھتا اور پھر بند کر دیتاہے۔ البتہ جب اسے بھوک لگی ہوتی تووہ اٹھ کھڑا ہو تا، لمبی جمائی لیتا ،زبان نکال کر منہ پر پھیرتا اور دم ہلاتے ہوئے چُوں چُوں کرتاہے۔ کتے کی چُوں چُوں سن کر بھیڑوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے باہر کوئی آیا ہوا ہے۔وہاں سے مَیں مَیں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ہم میں سے کوئی ایک پچھلے برآمدے سے گھاس کے دو” پُولے” لاکر انہیں ڈال دیتاہے۔اس نقل و حرکت پر مُرغوں کی کوٹھڑی میں بھی ہلچل مچ جاتی ہے۔تب ہمیں یاد آتی ہے، مرغیوں کے انڈے بھی تو اٹھانے ہیں، لیکن انڈوں کے ساتھ مرغیاں بھی نکل جاتی  ہیں۔یوں جب لکڑیوں کی بجائے انڈے لے کر اند رجاتے ہیں تو ماں غصے میں کہتی ہے ؛

“تمہیں کیا لینے بھیجا تھا”؟

تب ہم بھاگم بھاگ واپس جاتے اور لکڑیاں اٹھا لاتے ہیں، مگر اس افراتفری میں باہر والا دروازہ بند کرنا بھول جاتے ہیں اور ساری مرغیاں گھر کے اندر گھس آتی ہیں ۔ چند ایک غیر مہذب مرغیاں بڑے کمرے میں بیٹیں کر لیتی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔انہیں مار بھگاتے ہوئے ماں کو پتہ چل جاتا ہے۔ ہاتھوں میں مکئی کا آٹا لگا ہوا، دوپٹہ اکٹھّا کر کے  سر پہ رکھا ہُوااور آستینیں کُہنیوں سے اوپر لیے ہوئے ، وہ روٹی پکاتے چھوڑ کر باہر نکل آتی ہے۔ غصے سے ہمیں دیکھتی ، پھر “سانکال” سے دانے نکال کر ایک تھالی میں ہمیں دیتی ہے۔ہم برآمدے میں مرغیوں کو دانا ڈال کر دروازہ بند کر دیتے ہیں۔

گھر میں “اوتھرو “لگا ہوا ہے۔بڑا کمرہ جس میں مرغیوں نے بیٹیں کرلی تھیں اور جس میں دوچارپائیوں پر ہم ماں کے ساتھ سوتے تھےوہ زیادہ متاثر ہو گیا تھا۔گھر کے سارے برتن کچے فرش پر جابجا رکھے ہوئے ہیں لیکن اوتھرو اتنا زیادہ ہے کہ ہم بے بسی کے ساتھ اسے دیکھنے کی علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔تقریباً پورا فرش گیلا ہو گیا ہے۔ دیکھ دیکھ کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔بھیگی ہوئی مٹی کی خوشبو چولہے سے اٹھنے والے دھوئیں کے ساتھ پورے گھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن ہمیں وہ خوشبو بالکل بھی اچھی نہیں لگتی ۔ہمارے بستر جنہیں چارپائی پر سرہانے کی طرف فولڈ کر کے  اوپر لوئیاں ڈال دی گئی تھیں، بھیگ گئےہیں۔ ہماری ایک خالہ جو ہم سے چند ہی سال بڑی تھی اور اتنی ہی ہم سے سیانی بھی تھی، ہمیں اٹھاتے، سنبھالتے، قد میں ہم سے بہت چھوٹی رہ گئی ،ماں کا بہت ساتھ دیتی تھی۔اس نے”اندرلے اندر “کی چھوٹی سی کھڑکی کھول کر باہر دیکھا اور ہمیں خوش خبری سنائی کہ باہر برف لگ گئی ہے۔اب ہر کسی کی خواہش ہے کہ وہ دادی کی چارپائی پر چڑھے اور وہاں سے کھڑکی کے ذریعے باہر کا نظارہ کرے۔ مگر اس کی ہمت کون کرے۔یوں ہمیں بار بار پیشاب آنا شروع ہو گیا اور ہم باری باری باہر جانے لگے۔

باہر ہر طرف خاموشی ہے۔ برف کے نرم گالے زمیں کو چوم رہے ہیں۔ اس چومنے کی آواز ماں کی سر گوشی کی جیسی ہے۔جیسے برف نہ ہو آسمان سے خدا کا کوئی پیغام اُتر رہا ہو۔برف جیسی پیاری مخلوق کی صورت، ریشم سے زیادہ نرم و نازک ، دودھ سے زیادہ سفید ۔اسے دیکھتے دیکھتے ہمارے کان ٹھنڈے ہو گئےہیں ، پاؤں سُن ہوگئے اور ناک سے لاوا بہہ بہہ کر ہماری آستینوں پر منتقل ہو تا جا رہا ہے۔کچھ کچھ ہم چاٹ بھی رہے ہیں مگر یہ اتنا زیادہ ہے کہ چاٹ چاٹ کر بھی ختم نہیں ہوتا۔پھر ہم اسے دامن میں سمیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔تب قد میں چھوٹی رہ جانے والی خالہ آتی ہے اور دوچار مُکّے مار کر ہمیں اندر لےجاتی ہے۔چولہے کے پاس گھاس کی بنی “پھڑی” پر لٹا کر اوپر بھیگی ہوئی لوئیاں ڈال دیتی ہے۔یوں ہم ٹھنڈے ہوتے جا رہے ہیں اور لوئیاں گرم ہوتی، سوکھتی جا رہی ہیں۔اب دوپہر کا وقت ہے، چولہے میں آگ بجھ چکی ہے۔لکڑی کے انگارے دھیرے دھیرے راکھ کے نیچے دب رہے ہیں۔اور ان کی ہلکی ہلکی لالی سے ہمیں حرارت مل رہی ہے۔

جانے کتنا وقت گزر جاتا ہے۔ دھم دھم کی زوردار آوازوں سے ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔میں پھر سے چھپ کر باہر نکل جاتا ہوں ۔مکان کے پچھواڑے لگی سیڑھی پر چڑھ کر دیکھتا ہوں۔ اپنے مکان سے برف اتارنے کے بعد تھکا ہوا تایا پسینے میں شرابور ، برف کو دھکیل رہا ہے۔اتنے میں ہمارے بڑے تایا کا نوکر آجاتا ہے اور وہ بھی برف دھکیلنا شروع کر دیتاہے۔عصر کے وقت ہمارے مکان سے ساری برف اتر کرگھرکی چاروں طرف ڈھیرہو جاتی ہے۔تایا گرم پانی سے ہاتھ پاؤں دھو کر اپنے گھر چلا جاتا ہے اور نوکرگٹھنے  تک برف میں چلتا ہوا “کہاڑی” تک پہنچتا ہے، کہاڑی سے برف اتارتا ہے اور گھاس نکال کر برآمدے میں ڈالتا جاتا ہے۔سامنے کے محلے میں شور پڑجاتا ہے۔پتہ چلاچاچا فیروز دین کے مکان کی چھت بیٹھ گئی ہے۔ بھلا ہو اکہ ایک ہی کمرے کی چھت گری ہے۔ لوگ اپنے مکانوں سے اور بھی تیزی کے ساتھ برف اتارنا شروع ہو گئے تھے۔ جن لوگوں نے برف اتارلی تھی وہ فیروز دین کے گھر جمع ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تب اندھیرا اور بھی بڑھ جاتا ہے اور رات ہونے لگتی ہے۔آج ماں نے گُڑ میں چاول پکائےہیں اور ان کی خوشبو سے گھر مہک رہا ہے۔ “ٹہبری” کی زرد لو میں ہم گرم میٹھے چاول کھا رہے ہیں ۔ اور ماں “گوال” میں بھینسوں کی گوبر کھاریوں میں بھر بھر کر ایک کونے میں رکھ رہی ہے۔دادی نماز پڑھ کر مصلّحے پر بیٹھی تسبیح کر رہی ہے۔ خالہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے برتن دھو رہی ہے۔ ہم انگاروں سے کھیل رہے ہیں اور دادی سے پوچھ رہے ہیں اگر رات کو پھر برف لگ گئی اور پوری رات لگی رہی اور ہمارے گھر کی چھت بھی گر گئی تو ہمیں کون نکالے گا؟ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply