معاشرہ اور انتہا پسندی/حسان عالمگیر عباسی

چند دن پہلے ایک تحریر کہی تھی جس میں انتہاپسندی کے نہ ہونے کی بات ہوئی تھی یا یہ کہ اس معاشرے کا چہرہ کم از کم انتہاپسندی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس معاشرے کی اصل یا فطرت سامنے آتی سے قبل ہی اس کا گندہ نظام اسے ایسے کھاگیا ہے جیسے حسد اچھائیاں کھا جاتا ہے اور اس نظام کی حمایت کرنے والے اچھے لوگ مجبوری میں ایسا کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ چیزوں کو ضرورت سے زیادہ اون کرنا یا اپنانا بھی ہے مثلاً وطن پرستی، مذہب پرستی، قوم پرستی، برادری ازم، جماعت پرستی وغیرہ۔ یہ گھٹن زدہ معاشرہ ہے جہاں خطرات کے بادل مسلسل منڈلاتے رہتے ہیں گویا

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اس حسن ظن کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہے کہ اس معاشرے کے جنگل نظام میں اب بھی مسکراہٹیں باقی ہیں اور ہمدردی موجود ہے۔ میرے خیال سے بلیم گیم کا فایدہ نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ حتیٰ الامکان شمعیں روشن اور دوسروں سے توقع باندھنے کی بجائے انھیں قبول کر لیا جائے۔ ایک بات تو پتھر پہ لکیر ہے کہ اس معاشرے میں انقلاب کی باتیں صرف دقیانوسیت ہے۔ جبری بیعت لینی ہے تو مسائل میں اضافہ ہو گا اور ذہن سازی اس لیے ناممکن ہے کیونکہ اب انفرادیت پسندی کا رجحان ہے۔ تبدیلی ممکن نہیں ہے یا کم از کم مستقبل قریب یہ نوید آپ کو نہیں دے سکتا البتہ اس کے لیے کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن کوشش کے نام پہ پتلون کے ایک حصے میں دونوں ٹانگیں گھسیڑنا صرف انتشار پیدا کر سکتا ہے۔ جہاں مادہ پرستی کے نام پہ اخلاص کو دریا برد کر کے من گھڑت جھوٹے نظریات روز سننے میں آئیں تو الامان و الحفیظ ہی مناسب الفاظ ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس گلے سڑے بے ہودہ گندے نظام میں اب بھی اگر کچھ سر ایسے ہیں جن کے ماتھے کے نیچے آنکھیں ہنستی ہیں تو امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ بری خبر بھی ہے لیکن بری خبریں تو ملتی رہنی ہیں یہ کام کسی اور کے کرنے میں ہی آ جانا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply