پتنگ باز بلماں قاتل ڈور اور خون سے لال سڑک /عامر عثمان عادل

شہر ہے فیصل آباد۔۔22 سالہ آصف بایئک پہ گھر سے افطاری کا سامان لینے نکلا،ناولٹی پُل سے نیچے اُترتے ہی تیز دھار قاتل ڈور اس کے گلے پہ پھر چکی تھی۔
شدت درد سے بے حال لڑکھڑاتے ہوئے یہ عین سڑک کنارے جا گرا،ہمت کر کے پاؤں پہ کھڑا ہوا، مگر خون کا فوارہ اُبلا اور اس کا سفید لباس رنگین ہو گیا۔
راہگیر لپکے سہارا دیا مگر یہ ان کے بازوؤں میں جھول گیا۔
شیر جوان تھا تازہ لہو کی فراوانی تھی سو اپنے آپ سے لڑتا رہا
لیکن کب تلک؟
شہ رگ ہی کٹ جائے تو کتنی سانسیں بچتی ہیں
چند لمحے تڑپا اور کہانی ختم
سڑک بھی اس کے خون سے سرخ ہو گئی
سنا ہے عید کے بعد اس کی شادی تھی
گھر والے جو انتظار میں تھے کہ بیٹا کچھ لے آئے تو روزہ کھولیں،انہیں کیا خبر تھی کہ وہ اب کبھی نہیں آنے والا۔۔آنا ًفاناً کئی گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔
وہ ماں جس نے پال پوس کر اسے جوان کیا ،کیسے صبر کیا ہو گا ؟
باپ نے کیسے جوان لاشے کو کندھا دیا ہو گا ؟
اور اس کی منگیتر پہ کیا گزری جس کے ہاتھوں پہ شگنوں کی مہندی سجنا تھی ؟
اس کا لہو کس کے ہاتھوں پہ تلاش کروں؟
پتنگ باز بلماں
قاتل ڈور بیچنے والے
خونی ڈور بنانے والے
منتھلی لے کر آنکھیں بند کر لینے والے
یا پھر ہم سب۔۔
جو آئے روز سڑکوں سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے ہیں
چپ چاپ دفناتے ہیں اور تقدیر کو کوستے ہوئے چپ سادھ لیتے ہیں
اندرون شہر لاہور میں گھروں کے تہہ خانوں میں بنے کارخانوں میں دھڑا دھڑ قاتل ڈور بنا بنا کر مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے
کیا یہ گھناؤنا عمل دہشت گردی سے کم ہے ؟
کہاں ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے؟
انسانی جانوں کی سلامتی کے ذمہ دار ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

9 مئی کو بنیاد بنا کر اس کے ذمہ داران کو پاتال سے بھی کھینچ کر نکال لانے والوں کو یہ قاتل ڈور بنانے ، سپلائی کرنے اور بیچنے والوں کی کوئی خبر کیسے نہیں ہو پاتی ؟
کب تلک ؟
یہ قاتل ڈور کسی پولیس افسر، ڈی سی،کسی قاضی،کسی وردی والے کے بیٹے کی گردن پہ وار کیوں نہیں کرتی ؟
ہر بار اس کا شکار غریب زادوں کی گردن ہی کیوں ؟

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply