“Love for all ,trust a few and do wrong to none ”
یہ سطور ولیم شیکپئر کے مشہور ڈرامے “All’s well that ends well ” سے ماخوذ ہیں۔اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک فزیشن کی لڑکی Helena کو ایک امیر ،اثر و رسوخ رکھنے والے ایک Count جس کا نام Bertram ہے سے پیار ہوجاتا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے وہ جتن کرتی دکھائی دیتی ہے ۔اگرچہ کہانی کے اختتام پر Helena کو Bertram کا پیار مل جاتا ہے لیکن اس دوران جو Bed tricks کھیلی جاتی ہیں یا دوسرے طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں اُن کا اگر جائزہ لینا شروع کردیں تو شیکسپئیر کے اندازِ تحریر پر کئی طرح کے اعتراضات بھی اُٹھتے ہیں ۔
مثال کے طور پر فزیشن کے انتقال پر اُس کی لڑکی کا Count of Roussiline کے گھرہی آنا ،
پھر اُس کا Bertramسے پیار کرنا حالاں کہ ثانی الذکر میں کوئی خاص خوبی دکھائی نہیں دیتی ۔۔پھر لڑکی کا فرانس کے بادشاہ کی بیماری کی صورت اُس کا علاج کرنے کی کوشش کرنا اور اُسے اپنی زندگی کی ضمانت دینا۔سب سے بڑی غلطی جس کوArtistic failure کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب Bertram ایک اور لڑکی Diana کے ساتھ شرارتیں کر رہا ہوتا ہے تو Daiana کا Helena سے ملنا اور دونوں کا مشاورت سے Bertram کو چال میں پھنسانا ،Bertramکا Helena کے ساتھ رات گزارنا اور اسے اپنی خاندانی انگوٹھی دینا یہ وہ عوامل ہیں جن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ شیکسپئر جس قد و قامت کا ڈرامہ نگار تھا اُس انداز سے اس ڈرامے میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرسکا۔۔
مکالمے اگرچہ مضبوط ہیں لیکن واقعات کے مابین ربط (cohesion ) کی شدید کمی محسوس کی جاسکتی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں