لال حویلی/حبا نور

سعادت حسن منٹو نے کیا خوب لکھا تھا،

“ہمارے ججز نے دھوتیاں باندھ رکھی ہیں، جب کوئی غریب انصاف مانگنے آئے تو آگے سے اٹھا دیتے ہیں۔۔ اور کوئی طاقتور آئے تو پیچھے سے اٹھا دیتے ہیں۔۔”

ہماری عدلیہ ہمارا سماج اس دور سے گزر رہے ہیں کہ  زبان کھولیں گے تو توہینِ  عدالت، بند رکھیں تو ظلم کے سہولت کار۔

یہ معاشرہ اس قدر پستی میں دھنس گیا ہے  کہ اب بضد عمران خان جتنا بھی اونچا  الاپ  کرے، ان کو سنائی نہیں دے گا،اور اگر انقلاب کی ہی بات کریں تو انقلاب قومیں لاتی ہیں، آپ کے دوہرے بیانئے سے  میں کس طرح اتفاق کر لوں کہ ایک طرف آپ خونی انقلاب کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ ہی بند رستے سے اسی اسٹبلشمنٹ سے  مذاکرات کر رہے ہیں، جن  کے گریبان آپ دن کے اجالے میں   چا ک کرتے ہیں، اور رات کی  اندھیرے  میں انہی سے نصرت مانگتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ  جس سانپ کو آپ آستین میں پال رہے ہیں  وہی تو75  سال سے  ہمیں اور آپ کو ڈس رہا  ہے ۔

معاف کیجئے گا میری بیباکی پر۔۔ لیکن انصاف کے نظام کے  تو المثل ایوارڈ یافتہ ہیں ہم، آپ تبدیلی لے کرآ ہے تھے ،3 سال تک قوم بونگو کی طرح آ پکا منہ دیکھتی رہی   اور آپ ہم بونگو کو مزید بیوقوف بناتے رہے۔ یہ سچ جانتے ہوئے بھی کہ  اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھا جانے والے عناصر کون ہیں۔ بانی ء پاکستان نے بھی خود اُٹھ کر زہر کھا لیا ہوگا ، فاطمہ جناح نے بھی خود پر تشدد کر کے اپنے آپ کو   ٹھکانے لگایا ہوگا  ، لیاقت علی نے بھی خود اپنے سینے میں گولی دے ماری ہوگی ،اور  بھٹو نے بھی    خود ہی پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال لیا ہوگا،۔ محاذ بی بی شہید نے بھی خود گولی کھا کر تاریخ رقم کی ہوگی ، اور اب خان صاحب آپ پر بھی آسمان سے گولیوں کی بارش ہوئی ہوگی ۔

یقیناً  یہ احمقانہ  باتیں میں تو کر سکتی ہوں پر اپ نہیں  مانیں  گے ،کہ کوئی خود اپنی ذات پہ  ظلم کیوں کروائے گا۔ جا ن کس کو   پیاری نہیں ہوتی۔  تو بس پھر خدارا ہم بونگو کو مزید  بونگا  نہ بنائیں۔ اس قوم پر ترس کھائیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ آپکے موقف کی تائید کرے گا اگر آپ حق کا   ساتھ خالصتاً  اس غریب عوام کی خاطر دیں۔

اس قوم کو ایک گڈریا چاہیے ،جو اپنے ریوڑ کو ہانکتا ہوا، اس طرح دریا عبور کروائے کہ  اسے رستے میں حملہ آور ہر بھیڑیے کی چا ل کا بخوبی اندازہ ہو۔

اور میرے محترم خان صاحب انصاف تب ہی قائم ہو گا جب انصاف دینے والے یکساں آزاد اور بلا خوف فیصلے کریں گے،اور عدالت کسی جرنیل کسی وڈیرے یا کسی وزیر  کے  گھر کی لونڈی نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ورنہ جن کو آپ گلے لگانا چاہتے ہیں، قوم کو ان بھیڑیوں سے کوئی امید نہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply