فرخ سہیل گوئندی اور اُن کا منفرد سفر نامہ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’/حصّہ اوّل/تبصرہ:ڈاکٹر اے بی اشرف

جناب فرخ سہیل گوئندی کی شخصیت اتنی پہلو دار اور اتنی مختلف الحیثیات ہے کہ اس کا احاطہ ایک نشست، ایک مضمون حتیٰ کہ ایک کتاب میں کرنا مشکل ہے۔ وہ ایک عملیت پسند سیاست دان یعنی (Political Activist) ہیں، جن کے سیاسی معرکوں کی ایک طویل داستان ہے۔ وہ ایک نظریہ ساز اور منفر د سوچ رکھنے والے قلمکار ہیں جنہوں نے تاریخ ساز کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔ ایک زمانے  میں ایک نیم ادبی نیم سیاسی رسالہ ‘‘صدائے جمہور’’ بھی نکالا ،جو پورے کا پورا آرٹ پیپر پر شائع ہوتا تھا اور نہایت معیاری اور اہم تحریروں پر مشتمل ہوتا تھا اور جس کی اپنی ایک الگ پہچان تھی۔

وہ ایک نہایت کامیاب اینکر پرسن بھی رہے۔ انہوں نے تاریخ ساز شخصیتوں کے انٹرویوکیے۔ کئی چینل بھی شروع کیے اور انہیں کامیابی سے چلایا۔ سیاسی کالم بھی لکھتے رہے ، سوشل میڈیا میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔وہ ایک سوشل ڈیموکریٹ ہیں اور انہوں نے مختلف تقریبات اور جلسوں میں اپنی دانشورانہ گفتگو اور تقریروں سے نوجوانوں اور جیالوں میں ایک نئی سوچ اور نیا جذبہ پیدا کیا۔گویا جس میدان اور جس شعبے میں قدم رکھا، کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

کچھ عرصہ پہلے انہوں نے لاہور میں ‘‘جمہوری پبلیکیشنز’’ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا اور ایسی ایسی نادر کتابیں ،ہر موضوع پر ترجمہ اور تصنیف کروائیں کہ بایدوشاید ۔یہی وجہ ہے کہ قلیل عرصہ میں ان کے ادارے نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ اپنے ملک کے توصف اوّل کے اشاعتی اداروں میں شامل ہو گیا ۔ ان کی کتابوں کی نمائش پاکستان کے کئی شہروں میں ہونے کے علاوہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی ہوچکی ہے۔ ترکی اور جرمنی کی نمائشیں تو مجھے یاد ہیں۔

ان کی اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے روشن خیالی پر مبنی نظریات اور سیاسی تبصروں کو اتنے خوبصورت ، دلچسپ انداز اور سہولت کے ساتھ دوسروں تک پہنچاتے ہیں کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی بات میں تیقن ہوتا ہے۔اعتماد ہوتا ہے ،اس لیے کہ ان کی گفتگو تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہوتی ہے اور مدلّل ہوتی ہے ۔مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ نوعمری ہی میں  ان میں شعور کی پختگی ، بصیرت اور میچورٹی کہاں سے آگئی ، کیوں کہ   آج سے تیس بتیس سال پہلے جب میری ان سے پہلی ملاقات ترکی میں ہوئی تو وہ نوعمر اور نوجوان تھے مگر اس وقت بھی وہ جس موضوع پر بات کرتے یا اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ، میں ان کا منہ تکتا رہا جاتا اور میری زبان پر ناصر کاظمی کا یہ مصرعے آجاتا کہ
ان کی باتیں سوچی سمجھی جیسے غالب کا دیوان

اصل میں ایک تو فطرت نے ان کو ذہن رسا اور فکر و ذکاسے سرفراز کیا ہے، پھر ذوالفقار علی بھٹو ، بلند ایجوت، شیخ رشید، ملک معراج خالد، مبشر حسن، حنیف رامے ، عاصمہ جیلانی، منو بھائی ، راؤ رشید، وارث میر، اعتزاز احسن وغیرہ جیسے اکابرین، مدبرین اور مفکرین کی ہم نشینی نے ان کے افکار کی تشکیل میں حصہ لیا ، ظاہر ہے جمال ہم نشین کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔

فرخ سہیل گوئندی ایک روشن خیال ، لبرل اور سیکولر ذہن رکھنے والے دانشور ہیں۔ یہی سوچ اور فکر ان کی تصنیفات اور تالیفات میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔‘‘میرا لہو’’ ان کی پہلی تصنیف ہے جو ذوالفقار علی بھٹو پر لکھی گئی ہے۔ یہ ایک ہنگامہ خیز دَور پر مبنی بر حقیقت تاریخ ہے جس کو ان کا شاہکار (Magnum Opus) کہا جا سکتا ہے۔یہ ایک ایسی تاریخ ساز کتاب ہے جس میں مصنف نے پاکستان کی ابتدائی سیاسی تاریخ سے شروع کر کے ذوالفقار علی بھٹوکی جد وجہد اور پیپلز پارٹی کے قیام ، سقوطِ ڈھاکہ اور بھٹو صاحب کے دورِاقتدار اور پھر مارشل لاء کے نفاذ اور قائد عوام کی شہادت تک کے واقعات کو تاریخی حقائق کی روشنی میں بڑے مربوط انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔ میری دانست میں یہ کتاب نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو شہید پر لکھی گئی ایک بہترین کتاب ہے بلکہ پاکستان کے عوامی جمہوری دَور کے کارناموں پر اور مارشل لاؤں کی پھیلائی ہوئی بربادیوں کی مبنی بر حقیقت داستان بھی ہے۔ اس کتاب کے ایک ایک حرف سے مصنف کی تاریخی اور سیاسی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرخ سہیل گوئندی نے وطن عزیز کے ہنگامہ خیز دَور کی تاریخ رقم کر دی ہے۔

اپنی کتاب‘‘ لوگ در لوگ ’’ میں فرخ سہیل گوئندی نے جن شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں، اُن سے وابستہ ادوار ، حالات و واقعات اور سیاسی حقائق کی نہایت دلچسپ ، فکر انگیز اور معنی خیز داستان بھی رقم کر دی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو ، حنیف رامے، ملک معراج خالد ، مولاناعبید اللہ سندھی، شیخ محمد رشید، بلند ایجوت، بے نظیر بھٹو، ملک معراج خالد، راؤ رشید ، خشونت سنگھ، وارث میر، عاصمہ جیلانی، منو بھائی، اور کئی دیگر بین الاقوامی شخصیتیں کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ سب کی سب تاریخ ساز شخصیتیں ہیں جن سے مصنف کا شخصی تعامل و تفاعل (Interaction) اور ذاتی تعلقات رہے ہیں ۔ پھر ان کی اپنی شخصیت بھی اس کتاب میں عکس پذیر ہوئی ہے کہ کس طرح لڑکپن ہی سے کیسے کیسے مر حلہ سے گزر کر وہ ایک سیاسی عملیت پسند بننے میں کامیاب ہوئے اور کس طرح ان کی اپنی متحرک اور قوتِ عمل سے بھر پور (Dynamic) شخصیت وجود میں آئی۔

ایک اور کتاب ‘‘ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیسے ہوا؟’’فرخ سہیل گوئندی کی ایک ایسی تالیف ہے جس میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوشہید کے درد ناک عدالتی قتل کی پوری سازش کو بے نقاب کیا گیا ہے۔اس کتاب کو پڑھ کر مجھ پر رقت بھی طاری ہوئی ، اور غم و غصہ کی ایک لہر سی بھی دوڑ گئی کہ کس طرح ایک استعماری عالمی قوت کے اشارے پر ایک دروغ گو، سنگدل اور آئین شکن مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کے دباؤ میں آکر ضمیر فروش ججوں نے ایک ایسے بے گناہ شخص کو پھانسی پر چڑھادیا جو بین الاقوامی سیاست کا ایک مرکزی کردار اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بے مثال لیڈر تھا جس نے پاکستان کو پہلا آئین دیا۔ پاکستان کے کسانوں ، مزدوروں اور غریب عوام کو ایک شعور عطا کیا، نوے ہزار قیدیوں کو ہندوستان کی قید سے رِہا کروا کر فوج کی شکستہ عزت کو بحال کیا۔بے مثال اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروا کے عربوں کو تیل کی قوت کا احساس دلایااور ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھ کر وطن عزیز کو عالمی قوتوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔

اس طرح ‘‘ترکی ہی ترکی’’ جناب فرخ سہیل گوئندی کی ترکی سے عشق کی ایک ایسی داستان ہے جس میں ترکی کے ماضی ، حال اور مستقبل کا زائچہ لکھ دیا ہے۔ اپنی اس تصنیف میں فرخ صاحب نے ترکی کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت ، سیاست، سیاحت، معیشت اور معاشرت پر اتنے خوبصورت مضامین قلم بند کیے ہیں کہ مجھے ان کے مطالعے ، مشاہدے اور تجربے پر حیرت ہوتی ہے۔ان کے تجزیے ،ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں۔ میں یہاں اپنا تبصرہ کرنے کی بجائے ترکی کے سابق وزیراعظم اور ترکی کے نجات دہندہ غازی مصطفی کمال پاشا کی سیاست کے وارث اور پیرو کار جناب بلند ایجوت مرحوم کی اس رائے کو درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں،جنہوں نے فرمایا:
‘‘فرخ سہیل گوئندی میرے ان دوستوں میں سے ہیں جن کے ساتھ سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنے میں لطف آتا ہے۔ وہ پاکستان کے علاوہ عالمی سیاست، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اور ترکی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ترکی کے بارے میں وہ کسی ترک دانشور سے کم آگاہ نہیں ہیں۔ وہ ترکی کے تاریخ ، سیاست اور ثقافت پر حیرت انگیزگرفت رکھتے ہیں۔’’

اس امر کی گواہی تو میں بھی دے سکتا ہوں کے مجھے یہاں رہتے ہوئے بتیس ، تینتس سال گزر چکے ہیں مگر میں ترکی کے بطون میں جھانکنے سے قاصر رہا ہوں ۔جبکہ فرخ سہیل گوئندی ترکی اور ترکوں کی سائیکی کو کما حقہ سمجھنے میں ترک دانشوروں سے بھی زیادہ کامیاب رہے ہیں۔

ترکی سے ان کی محبت محض سیاحت اور سیاست تک محدود نہیں رہی بلکہ ترکی موسیقی، فنونِ لطیفہ اور ترکی کی ادبیات کے بھی غواص ہیں۔ انہوں نے ترکی ادبیات کو پاکستان میں متعارف کرانے میں بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے غازی مصطفی کمال کی تاریخی تقریر‘‘ نطق’’ کو اپنے اشاعتی ادارے سے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کروایا ہے۔اس کے علاوہ لارڈ کِنراس کی کتاب Ataturk-Rebirth of a Nation کا اردو ترجمہ کروا کے اسے زیور طبع سے آراستہ کرایا۔میری دانست کے مطابق یہ کتاب مصطفی کمال پر لکھی گئی تمام کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ترکی کے نام ور ناول نگاروں کے بہت سے مشہور ناولوں کے تراجم شائع کروا چکے ہیں، ان ادیبوں میں یشار کمال ، اورحان ولی،نوبل انعام یافتہ اورحان پاموک، ایلف شفق تو میرے علم میں ہیں ۔شبیر حیدر صاحب کا ترجمہ کردہ ‘‘ارطغرل غازی’’ زیر طبع ہے۔

فرخ سہیل گوئندی نے جوانی کے زمانے ہی سے دو جنون یا عشق پالے۔ ایک تو سیاست کا اور دوسرا سیاحت کا اور ان دونوں مشاغل یا مقاصد کو اپنی انتہا تک پہنچایا۔ان کی سیاحت کے عشق کا تازہ شاہکار ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’ہے جس کو خود ان کے اپنے ادارے سے طبع ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں ۔ مجھے یہ انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے موصول ہوا۔سفر نامے کے صفحات دیکھ کر میں پریشان سا ہوا کہ اسے کیسے پڑھ پاؤں گا کیوں کہ جب سے قویٰ مضمحل ہوئے ہیں ،زیادہ مطالعہ تکلیف دینے لگا ہے۔ مگر میرے عزیز فرخ سہیل گوئندی کی کوئی تحریر ہو، میں اُسے کما حقہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اُس میں مجھے ہمیشہ ایک شعور بھی ملتا ہے اور روشنی بھی۔اور یہ کتاب تو ان کے دوسرے عشق یعنی سیاحت کا نچوڑ ہے، اسے پڑھے بغیر کیسے رہ سکتا تھا ۔ چنانچہ کتاب کے ملتے ہی اس کا مطالعہ شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا اور آج اسے مکمل پڑھ لینے کے بعد میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس سفر نامہ کو پڑھتے ہوئے مجھے ناول اور افسانے کا سا مزہ آیا۔ نوجوانی کے زمانے میں عظیم روسی ناول نگاروں کے عظیم ناول پڑھتے وقت میں جس کیف میں ڈوب جاتا تھا، ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’ کو پڑھ کر مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوئی۔

سفر کے آغاز ہی سے دلچسپی اور تجسس کا آغاز ہو جاتا ہے اور قاری بھی سفر نامہ نگار کے ساتھ ساتھ اَن جانے سفر کو روانہ ہو جاتا ہے۔ ویزے وغیرہ کے حصول میں جو مشکلات پیش آئیں، ان کی تفصیل بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ضیا الحق کے دور میں کسی سوشلسٹ ملک کے ویزے کو حاصل کرناجوئے شیر لانے سے کم نہ تھا، مگر فرخ سہیل گوئندی نے بڑی مہارت سے یہ آگ کا دریا عبور کیا اور بذریعہ بس ، جو منگول دکھائی دینے والے افغانیوں سے بھری ہوئی تھی، ایران کی طرف روانہ ہوئے۔ پُراسرار سکوت میں بس بلوچستان کے وحشت ناک سیاہ پہاڑوں میں سے گزرتی چلی گئی ۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے سکندر اعظم بھی ہندوستان میں داخل ہو ا تھا اور راجا پورس نے اسے ناکوں چنے چبوائے تھے۔

سفر نامے کے پہلے حصے میں جب ان کی بس تفتان کی کی جانب رواں دواں تھی، سیاہ پہاڑوں ، خشک صحرا اور سیاہ ترین رات میں اس کی مدھم روشنی یکایک چند انسانوں پر پڑی ۔ گویا پہلے مرحلہ پر ہی جہاں گرد کی نظر سفید چمڑیوں والی نیم عریاں ایک ایسی مخلوق پر پڑی جسے عرف عام میں ہپی کہتے ہیں اور جن کی پوری دنیا میں تحقیر و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالاں کہ فرخ سہیل گوئندی کے نزدیک یہ بے ضرر، پُرامن اور آزاد منش مخلوق تھی۔ فرخ صاحب نے انہیں صوفیوں اور سادھوؤں کے روپ میں دیکھا ہے۔ انہوں نے ہپیوں کی مختصر سی تاریخ بیان کر کے اُن کو ایک مثبت پہلو سے دیکھااور پیش کیا ہے۔اُن کے مطابق پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں بغیر کسی مرکز اور منشور کے یہ تحریک دنیا پرکافی اثرات مرتب کر گئی ۔امریکہ سے اُ ٹھ کر یہ تحریک پورے یورپ میں اورآگے بڑھ کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔مغرب کے بڑے بڑے لیڈر ، فلسفی اور لکھاری اس تحریک میں شامل ہوئے۔جدید عالمی سیاست پر ان کے دو اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ایک جنگ مخالف اور دوسرا آلودگی کے خلاف۔ اس کے علاوہ ہیپیوں نے موسیقی اور مصوری اور ادب پر بھی انمٹ اثرات مرتب کیے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکہ میں احتجاجی تحریک کا آغاز تھا۔فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں:
‘‘سان فرانسسکو اور نیو یارک کی گلیوں میں جنگ مخالف ہیپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویت نام کے میدانِ جنگ میں جا کر امریکہ کے فوجیوں کو پھول پیش کر کے مقابلے میں زیادہ طاقتوار ہتھیار استعمال کر کے ضمیر کو جھنجھوڑڈالا اور یوں امریکہ اپنے ملک کے اندر جاری ویت نام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویت نام چھوڑنے پر مجبور ہوا۔’’(ص 28 )

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فرخ سہیل گوئندی اور اُن کا منفرد سفر نامہ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’/حصّہ اوّل/تبصرہ:ڈاکٹر اے بی اشرف

  1. بہت زبردست لکھا بے شک سر فرخ صاحب اس تعریف کے حقدار ہیں اور یہ اعزاز وطن عزیز میں شاید کسی اور کو نہیں ملا

Leave a Reply