دوپہر کی دھوپ میں/عارف خٹک

دوپہر کا وقت کا تھا، ہم یونیورسٹی لان میں کچھ کلاس میٹ لڑکے اور لڑکیاں جمع تھے۔ اس نے نیٹ کی ایک لمبی قمیض پہنی ہوئی تھی جو اس کی  ننگی رانوں کو بمشکل چھپا رہی تھی۔ اس کا نام نانا تھا، وہ جارجیئن تھی۔ اپنی پتلی کمر لہراتے ہوئے میری طرف بڑھنے لگی۔ میں جو ایک بینچ پر بیٹھا ہوا ماسکو کی گرم دھوپ سینک رہا تھا۔ موسم سرد تو نہیں تھا مگر دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔سر اٹھا کر دیکھا وہ سامنے تھی میں ہڑبڑا گیا کہ اچانک اس نے میرے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھ کر مجھے اٹھنے سے منع کیا اور خودسپردگی کی کیفیت میں مجھ پر ڈھے گئی۔
“کل رات کتنا انتظار کرایا۔ کیوں نہیں آئے؟”۔
اس کی آواز میں ایک لرزش تھی جیسے وہ مجھ سے یہ توقع نہیں کر رہی تھی کہ میں اس کی  دعوت پر اس کے گھر آنے سے منع کروں گا۔

“تم نے کہا تھا کہ مجھے لوبیو سوپ پسند ہے۔ میں نے تیرے لئے خود بنایا ۔۔ مگر تم نہیں آئے۔ تمہیں   پتہ ہے میں اپنی ماں کے سامنے کتنا شرمندہ ہوئی ہوں؟”۔

نانا کو ابھی تک قلق تھا کہ میں اس کے گھر نہیں گیا اور اس کے ہاتھ کا سوپ نہیں پیا۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا کہ اب نانا کو کیا جواب دوں۔ اس نے میرا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اپنی طرف گھمایا

“میری جان، کوئی پریشانی ہے؟۔ مجھے بتاؤ”

یہ کہہ کر اس نے میرا سر اپنے سینے پر رکھنے کی کوشش کی۔ میں نے جھنجھلا کر اپنا سر اس کے  ہاتھوں سے چھڑایا۔

“نانا ۔۔ ہر وقت ماں مت بنو میری، میں بھی انسان ہوں۔ مجھے بھی اپنے لئے وقت چاہیے  ہوتا ہے۔ ہر وقت سر پر سوار مت رہا کرو”۔

میرے لہجے کی درشتگی واضح تھی۔ اس نے خاموش ہوکر تھوڑی دیر مجھے دیکھا اور پوچھنے لگی

“اچھا نہیں بنتی ماں ۔۔۔  اِدھر دیکھو میری طرف۔۔”

اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ میری طرف محبت سے دیکھنے  لگی۔

”  اپنی آنکھیں بند کرلو۔ ۔”

اس نے اپنے نازک ہاتھ میری آنکھوں پر رکھ دیے ۔ ۔ اور مجھے میرے ہونٹوں پر تپش کا احساس ہونے لگا۔ میرے ہونٹ جیسے گرم ہورہے تھے تپ رہے تھے۔ ہماری زبانیں گویا سانپ بن گئیں تھیں ، ایک دوسرے کے اردگرد لِپٹ رہی تھیں۔ نانا نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں  میں  پیوست کرکے مجھے بے بس کر ڈالا۔ پتہ نہیں کتنی دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔۔ میری پریشانی کہیں ہواؤں میں اڑ گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“کب سے کتیا کی طرح بھونک رہی ہوں کہ میری ماں آرہی ہیں مگر تجھے تو میرے خاندان والے زہر لگتے ہیں ناں۔ تجھے ہر وقت اپنی بہنیں اور ان کے گندے بچے چاہیے ہوتے ہیں۔۔۔”

میں حتی الامکاں اپنی اجڈ بیوی سے بہت کم بات کرتا تھا کیونکہ اس کو چیخنے چلّانے کیلئے بہانہ چاہیے ہوتا تھا۔ میں نے نرمی سے اس کی طرف دیکھا

“میں پریشان ہوں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے بھی اپنے لئے وقت چاہیے۔ ”

بیگم کو گویا پتنگے لگ گئے۔

“کس بات سے پریشان ہوں۔ اچھا کھاتے ہو پیتے ہو۔ مفت میں سیکس کرتے ہو۔ ۔۔۔ بستر توڑتے ہو، کس بات کی پریشانی؟؟؟ ۔

بھاڑ میں جاؤ تم اور بھاڑ میں جائیں  تیرے ڈرامے”

Advertisements
julia rana solicitors london

پیر پٹختے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور پتہ نہیں مجھے کیوں نانا آج شدت سے یاد آنے لگی۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply