مقاربت۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

جنسی تصورات اور شہوانی ارمانوں کی ساخت غیر مستقل اور غیر مرکوز ہے، آپ کسی رنگین خواب کے ساتھ پوری زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اگر خارجی ارادہ کمزور تر ہے تو یہ خواب بس خواب ہی رہے گا (خارجی ارادے پر تفصیلی تحریر خاکسار کی وال پہ اسی نام سے دیکھی جا سکتی ہے).
وصل کے جذباتی لمحات اپنی شدت اور حساسیت میں اس قدر غیر معمولی اور منفرد کیوں ہوتے ہیں؟ یہاں علم وظائف الاعضاء کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم بحث کیلئے ایک دلچسپ باب کو کھول سکتے ہیں ، ہیجان کے اوج پر فرد حقیقی معنوں میں خود کو دو حصوں میں منقسم محسوس کرتا ہے، یعنی جسم و احساس کا ایک حصہ تو فرد خود ہے لیکن اسی جسم و احساس کا دوسرا حصہ گویا کہ ایک مختلف ذی روح ہے، وجود میں جیسے کوئی حیوان آ بسا ہو ، آنکھیں کسی آتشی درندے کی جھلک دیتی ہیں، فرد پر کوئی ان دیکھی طاقت قبضہ پا لیتی ہے۔ اس حیوان، اس آتشیں درندے اور اس ان دیکھی طاقت کا اصل نام مقاربت ہے۔ کچھ احباب اسے حیوانی جبلتوں کا عروج قرار دیتے ہیں لیکن یہ نکتۂ نظر اس لئے درست نہیں کہ خود حیوانی دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، جانور مقاربت کے حقیقی معنوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہاں یہ معاملہ بغیر جذبات و احساسات کے خالص میکانیکی طور پر وقوع پزیر ہوتا ہے ۔ان کے ہاں یہ فقط تولیدی وظیفہ ہے جو جبلت کی صورت پروگرامڈ ہے۔ انسان میں بھی یہ جبلت موجود ہے صرف اس فرق کے ساتھ کے فعل زوجیت کے وقت آپ کے جسم میں ایک لطیف و ظریف مادی وجود حلول کر جاتا ہے ، درحقیقت یہی وجود ہی مقاربت کی تکمیل کو سرانجام دیتا ہے ، شہوت کے اس کلائمکس پر گویا کہ جیسے دو ارغوانی بادل آسمانی بلندیوں پر انرجی کا تبادلہ کر رہے ہوں، جانوروں میں ایسا کوئی اضافی وجود ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ جانور شعور کہ نچلی سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں، دوسرا یہ کہ ہمہ جہتی اضافیت حضرتِ انسان ہی کا خاصہ ہے اور مزکورہ موضوع پر جنسی آمیزش میں ایک اضافی وجود سے انکار ممکن نہیں ,اس معاملے پر انسان کی غلط فہمی ملاحظہ فرمائیے، وہ سمجھتا ہے کہ وہی ان شہوانی جذبات کو محسوس کر رہا ہے، اس کے باوجود وہ ان احساسات کی تعریف کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ ان احساسات کا جنم اسی لطیف مادی وجود کا مرہونِ منت ہے جو ، بوقت، جسم میں حلول کر جاتا ہے، یہ وجود بے لگام ہے، جو سماجی یا منطقی اصولوں سے بالاتر ہے، اگر بے احتیاطی میں اسے ڈھیل دے دی جائے تو یہ تمام حدود پھلانگنے میں دیر نہ لگائے، مقام فکر ہے کہ جیسے فرد کے تمام خیالات اس کے اپنے نہیں ہوتے، اسی طرح تمام احساسات کا مالک بھی فرد بذات خود نہیں، چاہے کوئی اس کی جتنی بھی تردید کرتا رہے اس سے حقائق نہیں بدل سکتے۔
فحش فلموں کو آخر کس لئے برا سمجھا جاتا ہے؟ کیونکہ یہ سماج اور اخلاق کے خلاف ہیں؟ لیکن قتل و غارتگری بھی تو سماجی و اخلاقی جرم ہے، اس کے باوجود سکرین پر آئے روز ہم پورے خاندان کے ساتھ باجماعت یہ کشت و خون بہت شوق سے دیکھتے نہیں تھکتے، اس کا مطلب ہے کہ فحش فلموں کا تعلق صرف اخلاق، مذہب یا سماج سے نہیں، یہاں کچھ اور بھی ہے جس کی پردہ داری ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ فعل شرم آور ہے، یہ نکتہ حقیقت کے قریب معلوم ہوتا ہے، لیکن فورا سوال داغا جا سکتا ہے کہ یہ شرم آور کیوں ہے؟ کہیں اس لئے تو نہیں کہ فحش فلم بینی کے وقت پردۂ سکرین پر آپ دو اجنبیوں کو نہیں بلکہ جزوی طور پر خود کو بھی دیکھتے ہیں، جی ہاں یہی خود کو دیکھنا ہی شرم کا باعث ہے، اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جنسی وصال کے وقت وہ تمام احساسات جو جسم سے اٹھتے ہیں، آپ اکیلے ہی ان احساسات کے مالک نہیں بلکہ ان میں زیادہ حصہ اس لطیف مادی وجود کا ہے جو وقت قربت جسم کا حصہ بن جاتا ہے ،یہی واحد بنیاد ہے کہ جنسی قربت کے معاملات کو فرد پوشیدہ رکھنا پسند کرتا ہے، کلائمکس پر خارج شدہ انرجی کا بڑا حصہ یہی مادی وجود اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ایک جزو آپ کے جسم کیلئے چھوڑ دیتا ہے، انرجی کا یہ جزو آپ کے جسمانی یا جنسی اطمینان کا باعث بنتا ہے، آپ اس پوری واردات میں ایک کمزور سے شعوری ضبط سے زیادہ کا کردار ادا نہیں کر سکتے ، اس فعل میں جتنی آزادی ہو گی، انرجی کا اخراج اتنا زیادہ ہوگا اور نتیجے میں اطمینان کی سطح بلند تر ہوگی، دوران عمل اگر ضبط یعنی کنٹرول شدید ہوگا تو احساسات جاتے رہیں گے، بس دو زومبی مادۂ تولید کے تبادلے کی مشق کرتے دکھائی دیں گے، یہاں سمجھنے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ تمام مردانہ و زنانہ جنسی عارضے اسی ضبط کو ایک یا دوسری سمت میں مصنوعی کوشش سے بدلنے کا نتیجہ ہیں۔ ضرورت سے زیادہ شعوری کنٹرول کی کوشش نامردانگی اور قوائے جنسی کی کمزوری کا باعث بنتی ہے، دوسری طرف غیر ضروری آزادی جنونیت کو جنم دے گی، بالکل ایسے ہی جیسے گھوڑے کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہو ، اسے خوبصورتی سے ڈھیل دیتے ہوئے آپ سواری کا مزہ لے سکتے ہیں، لیکن لگام سے ہاتھ اٹھا لینا یا اسے ضرورت سے زیادہ کھینچ کے رکھنا وبال جان ثابت ہوگا۔
فرائیڈ کا مفروضہ معروف ہے کہ جب آپ بستر پر یک جان “دو جسم ” ہوتے ہیں تو اصل میں آپ دو افراد نہیں بلکہ چار ہوتے ہیں، ایک تو آپ دونوں جو بستر پر اپنے اپنے جسم کے ساتھ موجود ہیں اور دوسرے دو وہ ،جو آپ کے لاشعور میں اپنی تمام جنسی خواہشات کے ساتھ تڑپتے ہیں لیکن سماجی و اخلاقی پرورش کی بدولت لاشعور کی یہ خواہشات حقیقت کا روپ دھارنے سے قاصر رہتی ہیں، گھریلو جھگڑوں سے بچنے کیلئے ان تمام نقوشِ خیالی کو جسم پر وارد ہونے دیجئے، شعوری کنٹرول کا قلیل حصہ ساتھ ساتھ رہے کہ قلبی واردات اگرچہ ضبط پسند نہیں کرتی لیکن پاسبان عقل کا جزوی قرب اندھیر نگری کی راہ سے بچائے رکھنے میں مفید ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply