جو خود ہی اپنی زنجیر بنے۔۔حبیب شیخ

’یہ تم نے اپنے جسم پہ کیا لپیٹا ہؤا ہے؟‘
’یہ ایک زنجیر ہے۔‘
’زنجیر! کس نے تمہارے جسم پہ زنجیرڈال دی؟‘
’کون ڈالے گا! میں نے خود ہی یہ کیا ہے! ‘
’ہیں! یعنی تم نے خود ہی اپنے آپ کو زنجیر میں جکڑ دیا! ‘
’ہاں اپنی مرضی سے۔‘
’تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ زنجیر کو تو آزادی حاصل کرنے کے لئے توڑا جاتاہے نہ کہ خود ہی پہنی جاتی ہے۔‘
’آزادی کے لفظ سے میں بہت ڈرتا ہوں۔‘
’یہ تم کیا کہہ رہے ہو میرے دوست میرے پیارےدوست! ‘
’میں اپنے روایات کی فصیلوں میں قید رہنا چاہتا ہوں جو مجھے بتا دی گئی ہیں۔‘
’ان میں سے کچھ روایات غلط بھی تو ہو سکتی ہیں۔ ان کو بدلنا ضروری ہے ۔‘
’ہوسکتا ہے تم صحیح کہہ رہے ہو۔‘
’پھر کیوں تم خود کو مقیّد کر رہے ہو؟‘
’میں سوچنا نہیں چاہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا ذہن بھٹک جائے۔ میں کوئی سوال کرنا نہیں چاہتا کہ میرے سوال کو ارد گرد کے لوگ گستاخی نہ سمجھ بیٹھیں۔ میں کچھ اور دیکھنا بھی نہیں چاہتا کہ اس سے میرے اندر ہل چل اور اضطراب پیدا ہو جائے گا۔ میں اپنی مرضی سے کچھ بھی پڑھنا نہیں چاہتا کہ جتنا مجھے سمجھا دیا گیا ہے وہ زندگی گزارنے کے لئے کافی ہے۔ میں صرف وہی پڑھتا ہوں جو مجھے بتایا گیا تھا۔ میں کوئی مختلف رائے سننابھی نہیں چاہتا۔ کچھ اورسن لیا تو پھر میں غلط راستے پہ نہ چل پڑوں۔‘
’تم ایک انسان ہو، تم انسان ہو اشرفالمخلوقات جس کے پاس سوچنے کی صلاحیت ہے، کائنات کی تسخیر کی قوت ہے، ستاروں پر کمند ڈالنے کی ہمّت ہے۔ تم خلیفہ فی الارض ہو۔ تم خود کو ایک روبوٹ کے درجے پہ کیوں گرا رہے ہو؟‘
’بس مجھے زیادہ لیکچر دینے کی ضرورت نہیں ہے میں نےاپنے لیے اپنی مرضی سے یہ زنجیرپہن لی ہے اور میں اپنے اس عمل سے مطمئن ہوں۔‘
’تم نے کبھی سنا ہے کہ افلاطون کے صدیوں سے مشہور غار کے پسِ منظر میں سقراط سے فرضی مکالمے جس میں اس نے انسانوں کو تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس بارے میں پڑھو یا سنو تا کہ تمہیں پتا چلے کہ تم کون سی قسم کے انسان ہو۔‘
’تم افلاطون کا نام کیوں لے رہے ہو اس کا ہمارے مذہب یا روایات سے کیا تعلق ہے؟‘
’اس کا تعلق دنیا کے ہر انسان سے ہے، اس نے سقراط کے ساتھ اپنے مکالمے میں تین طرح کے لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اس وقت بھی صحیح تھا اور جو اب بھی اتنا ہی معنی خیز ہے۔‘
تین طرح کے لوگ؟‘
’ہاں، انسانوں کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں کو بہکایا جاتا ہے اور وہ پوری زندگی ان بہکاووں کو حقیقت سمجھ کر ذہنی تاریکی میں گزار دیتےہیں۔‘
’اور دوسری قسم؟‘
’یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر اپنے کنٹرول، طاقت کے لئے یا لالچ میں بہکاتے ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے ذہنی تاریکی میں رہتے ہیں۔ اور تیسرے طرح کے لوگ وہ ہیں جو ذہنی تاریکی کے غار سے باہر آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یہ حقیقت کو جاننے کی جستجو کرتے ہیں اور اس طرح معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں۔‘
’مجھے افلاطون جیسے غیروں کی کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘
’چلو افلاطون کی نہیں تو اقبال کی سنو اس نے خودی کا فلسفہ پیش کیا ہے۔ وہ تو ستاروں سے آگے جانے کے تلقین کر رہا ہے اور تم نے خود کو زنجیروں سے جکڑ لیا ہے۔‘
’وہ تو شاعر آدمی تھا جنوں میں کیا کیا کہہ گیا ہوگا۔ وہ کوئی ماننے والی باتیں تو نہیں ہیں۔ ہاں! گانے کے لئے مناسب ہیں۔‘
’چلو پھر اقبال کو بھی چھوڑو۔ جلال الدین رومی کی بات کریں کیا؟‘
’کیا بات! کیوں تم اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہےہو؟‘
’تم نے کبھی رومی کی گوبر کے کیڑے والی کہانی سنی ہے؟‘
’نہیں، مجھے رومی کے کلام سے کوئی شناسائی نہیں ہے۔‘
’اچھا! مختصر الفاظ میں کہانی یہ ہے کہ گوبر میں رہنے والا ایک کیڑا جس کو گوبر کے ڈھیر کی دنیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں پتا تھا، جب وہ ڈھیر کی اونچائی پہ پہنچ گیا تو اسے محسوس ہوا کہ اس نے دنیا میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر لیا ہے۔‘
’مجھے یہ تمہاری مثال بالکل پسند نہیں آئی۔‘
’ٹھیک ہے، پسند ناپسند ہر ایک کی اپنی اپنی ہے۔ ویسے یہ بتاؤ کہ تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم معلوم کرو کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کہاں جا رہی ہے اس کے بارے میں جستجو کرو، مطالعہ ،مشاہدات اور تجربات کی گہرائیوں میں اترو۔‘
’میں سمجھ گیا تمہاری سازش، تم مجھے آئے ہو بہکا نے کے لئے۔ بھاگ جاؤ یہاں سے، مجھے پتا ہے کہ میں کون ہوں، ہمارے عقائد، ہماری روایات، ہماری ثقافت، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ دنیا میں میں سب سے بہتر ہیں۔ اسی لئے دوسرے سب ہمارے دشمن ہیں۔‘
’آج رات کو جب سونے کے لئے لیٹنا تو سونے سے پہلے یہ ضرورسوچنا کہ سب دوسرے تمہارے دشمن ہیں یا تم ان سب کے دشمن ہو! ‘
پھر اس نے کانوں کو انگلیوں سے ڈھانپ لیا، آنکھیں بند کر لیں اور پوری قوت سے چیخا۔
’مجھے کچھ اور کرنے یا بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply