تیونس میں Me Too تحریک کے اسباب: حصّہ اوّل/منصور ندیم

تونسیا Tunisia , جسے ہم تیونس ہی لکھتے ہیں، براعظم افریقہ کا اسلامی ملک، جہاں سنہء ۲۰۱۹ Me Too تحریک بننے کا جواز وہاں کے ایک اہم پی منتخب ہونے والے زہیر مخلوف کی ایک تصویر بنی، جس تصویر میں وہ ایک لڑکیوں کے ہائی اسکول کے باہر وہ گاڑی کی اوٹ لے کر لڑکیوں کے اسکول سے باہر نکلتی طالبات کو دیکھتے ہوئے Masturbating  کررہے تھے، ان تصاویر کا سوشل میڈیا پر وائرل ہونا تھا کہ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی Me Too تحریک نے ایک مخصوص ہیش ٹیگ #EnaZeda کے نام سے خواتین کے خلاف ایک بھرپور جنسی ہراسمنٹ مزاحمتی تحریک کا روپ دھار لیا۔ خواتین نے خصوصاً EnaZeda کی مخصوص ٹی شرٹس پہن کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا، اور اس معاملے کی تفتیش کا مطالبہ رکھا۔

جب تحریک نے زور پکڑا تب انہی دنوں نو منتخب ایم پی اے  زہیر مخلوف نے اس الزام کا اس وقت مکمل رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چونکہ ذیابیطس کے مریض ہیں تو وہ گاڑی سے نکل کر بوتل میں پیشاب کررہے تھے ۔ (حالانکہ وہ پاکستان کے مخصوص طبقے کا حوالہ بھی دے سکتے تھے کہ وہ تو ڈھیلوں سے اسلامی استنجاء فرمارہے تھے ). سنہء ۲۰۱۹ اکتوبر میں تیونس کے اسکول و کالج کی طالبات نے اس پر بہت سارے مظاہرے کئے۔ انہی  مظاہروں کے بعد تیونس میں خواتین کی ایک تنظیم “اصوات النساء” (خواتین کی آواز) نے فیس بک پر ایک کلوز گروپ EnaZada کے نام سے شروع کیا، جو بنیادی طور ہراسمنٹ کے حوالے سے لوگوں  میں   آگاہی  پھیلانے کے   مقصد سے بنایا گیا تھا، مگر اس کے نتائج حیرت انگیز رہے۔ پیڈو فیلیا، ہراسمنٹ، جنسی زیادتی اور گھریلو جنسی زیادتیوں کی ایسی داستانیں اس پر شیئرکی جانے  لگیں کہ ہفتے بھر میں اس کے پچیس ہزار ممبرز اور لاکھوں لوگ اس کو فالو کررہے تھے۔

جنسی ہراسمنٹ، عصمت دری بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ہراسگی کے اس درجہ واقعات کی گواہیاں، فوج ،پولیس، یونیورسٹیوں، اسکول، کالج میڈیا، رشتے داروں پڑوسیوں کے خلاف لکھے جانے والے واقعات کا ایسا سیلاب تھا جنہیں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی لکھ رہے تھے۔ خصوصی طور پر بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی شرح اس قدر زیادہ تھی کہ آپ مغربی ممالک کے رپورٹ کردہ یا ریکارڈ شدہ اندارج کو اس کے مقابلے میں بھول جائیں۔ ہراسمنٹ پر سنہء ۲۰۱۷ میں تیونس کے قانون سازوں نے خواتین کو ہر قسم کے تشدد سے بچانے کے لیے ایک تاریخی قانون متعارف کروایا تھا، چونکہ یہ خطہ ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے زیادہ ترقی پسند خطوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس قانون کے مطابق اگر ایک بار ایسے کسی واقعے کی سرکاری طور پر شکایت درج کرادی گئی، تب اگر متاثرہ فرد اپنا ارادہ بدل بھی لے، تب بھی ریاست کی مدعیت میں قانونی طریقہ کار جاری رہتا ہے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قانون ابھی بھی “عمل درآمد کے مرحلے میں ہے”۔ مزید عملداری کے معاملے میں کسی بھی متاثرہ فرد، خاتون کو  جس طویل معاشرتی عذاب اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس قانون کے عمل کو مذاق بنانے کے لئے کافی ہیں۔کیونکہ ہراسمنٹ یا عصمت دری کے متاثرین کو پہلی رکاوٹ کا سامنا گھر سے پولیس اسٹیشن تک پہنچنا اور پھر پولیس میں شکایت درج کرانا بھی انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، جہاں اکثر خاندان اور قانون نافذ کرنے والے دونوں کی طرف سے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی توجیہات ، ثقافتی بندشیں اور عزت و غیرت کے غیر انسانی تصورات انصاف کے حصول کی سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ تیونس میں ایسے واقعات کے لئے طبی معائنے یا جانچ کا عمل بھی ایک شدید  ذلت آمیز عمل کی طرح ہے، کیونکہ وہاں عصمت دری کے معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی خصوصی طبی یا ہنگامی یونٹ نہیں ہیں۔ تیونس میں ہراسمنٹ سے لے کر عصمت دری تک کسی بھی متاثرہ فرد کے پاس انصاف کے حصول کے لیے جن نفسیاتی یا ریاستی سپورٹ کے علاوہ قانونی ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ تیونس میں ہر کسی کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

ہم مغرب کے ریکارڈ پر آنے والے واقعات کی بنیاد پر جن اسلامی ممالک میں اٹھنے والی ان تحاریک کو مغرب کی فحاشی، فیمنزم اور غیر ملکی سازشوں کا الزام لگا کر جسٹیفائی نہیں کرسکتے، آپ خود EnaZada فیسبک پر سرچ کرکے ہزاروں متاثرین کے واقعات دیکھ سکتے ہیں، تیونس جیسے ملک میں جہاں قانون اور معاشرتی ثقافت کی گھٹن میں ایسے واقعات کو دبایا جاتا تھا، جب انہیں راستہ ملا تو وہ ایک ہفتے میں لاکھوں کی تعداد میں سامنے آگئے۔ مشرق و مغرب کی بحث سے نکل کر حقائق کو دیکھنا ہوگا، اصوات النساء نے تیونس میں بڑے پیمانے پر ایسے متاثرین کو  عملی رہنمائی اور مدد فراہم کی ہے۔ اب آپ اسے Me Too کہہ کر نظر انداز کردیں یا حقائق کی بنیاد پر ان مسائل کے تدارک کی قانون سازی کو ان متاثرین کے حقوق کا ضامن سمجھیں۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سنہء 2017 میں بی بی سی افریقہ کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر لکھا گیا مضمون

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply