پار چناں دے – چندربھاگا سے چناب تک کا سفر( حصّہ سوم)۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

کچھ جنوب مغرب میں چلیں تو چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ واقع ہے۔ یہ بھی ایک قدیم علاقہ ہے جسکا ذکر اس کے خوبصورت طرزِ تعمیر اور جھروکوں کی وجہ سے تزکِ بابری میں ملتا ہے۔
بھوانہ سے آگے چناب ہیر سیال کے ضلع جھنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں مشہور قصبہ ”کھیوا” اس کی مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ صاحباں کا گاؤں ہے جو چناب کنارے ہماری دوسری کلاسیکی رومانوی داستان کا مرکزی کردار ہے۔

مرزا اور صاحباں رشتہ دار تھے اور بچپن سے اکٹھے پڑھتے رہے تھے، نہ جانے کب ایک دوسرے کے پیار میں کھو گئے۔تاریخ دان اس واقعہ پر متفق ہیں کہ ایک بار معلم نے مرزا کو چھڑی سے مارا تو صاحباں نے اپنی ہتھیلی بند کر لی اور جب اس نے ہتھیلی کھولی تو اس پر چھڑی کے نشان تھے۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور مرزا کو واپس اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا لیکن تب تک عشق دلوں میں گھر کر چُکا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مرزا ایک بہترین تیر انداز اور گھڑ سوار بن چکا تھا۔ مرزا کے جانے کے بعد صاحباں کے باپ کھیوا خان نے اس کا رشتہ کر دیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صاحباں نے مرزا کو پیغام بھجوایا اور مرزا شادی والے گھر سے صاحباں کو اٹھا لے گیا۔

راستے میں سفر کی تھکان سے مغلوب مرزا، ایک گھنے درخت تلے سو گیا ادھر صاحباں نے مرزا کے تیر توڑ دیے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مرزا ایک قابل تیر انداز ہے اور یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ مرزا کے نشانے پر اس کے بھائی ہوں۔ صاحباں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو منا لے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔

ان دونوں کا  پیچھا کرتے کرتے صاحباں کے بھائی وہاں تک پہنچ گئے اور مرزا کو مار دیا۔ جبکہ صاحباں کے بارے میں کچھ کہتے ہیں کہ وہ مرزا کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور کچھ کے مطابق اس کے بھائی اسے محل واپس لے گئے اور وہاں پر اسے مار دیا گیا۔

اس کہانی پر بھی پاکستان و ہندوستان میں کئی فلمیں بن چکی ہیں جبکہ نظم کی شکل دے کر اس لازوال داستان کو شاعر پیلو نے شہرت بخشی ہے۔

یہاں سے آگے خانیوال سے سرگودھا جانے والی مرکزی ریلوے لائن اسے کراس کرتی ہے اور پھر اس کے کنارے محبت کا شہر جھنگ آ جاتا ہے۔جھنگ، ساندل بار کا مشہور شہر ہے جو اپنے لوک میلوں، تہواروں، عرسوں، لوک فنکاروں، پہناوں اور انگریزوں کے خلاف اپنی بغاوت کے لیئے جانا جاتا ہے۔

جھنگ شہر، سردار رائے سیال نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ سیال قبائل نے جھنگ پر 360 سال حکومت کی ۔آخری سیال حکمران احمد خان تھے، جنھوں نے 1812ء سے 1822ء تک حکومت کی۔ اُن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے انگریزوں کے قبضہ میں گئی جنہوں نے اس علاقے سے کھڑے ہونے والے جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل کی وجہ سے اسے ہمیشہ پسماندہ ہی رکھا ۔

جھنگ کا ایک اور حوالہ محبت بھی ہے۔ چناب کنارے محبت کی اس سر زمین سے ہیر سیال جیسی مٹیارن نے جنم لیا رانجھے سے جس کے عشق کی داستان، چناب کہانیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔
بہت سے مصنفین و شعرا نے یہ کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی ہیر وارث شاہ ہے۔ مختصر کہانی یوں ہے کہ تخت ہزارے کا میاں مراد بخش عرف رانجھا باپ کے مرنے کے بعد بھائیوں سے تنگ آ کہ گھر چھوڑ دیتا ہے اور پھرت پھرتے ہیر سیال کے جھنگ آ پہنچتا ہے۔ یہاں جب وہ ہیر کو دیکھتا ہے تو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔

ہیر بھی رانجھے کی ونجلی (بانسری) کے سحر میں اس کی شیدائی ہو جاتی ہے اور یہ دونوں چھپ کہ ملنے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہیر کا چاچا کیدو اسے پکڑ لیتا ہے اور اس کی شادی کھیڑوں میں کر دی جاتی ہے۔

ماہی ماہی کوکدی میں آپے رانجھن ہوئی

رانجھن رانجھن ہر کوئی آکھے ہیر نہ آکھے کوئی

(شاہ حسین)

ادھر عشق میں نا کامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک فرقے کن پھٹا کا بانی تھا۔ اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے اپنے کان چھدوائے اور جوگی بن کر رنگ پور پہنچا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ یہاں اس نے سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی جسے پہچان کہ ہیر اپنی نند سہتی کے ساتھ اس سادھو کو خیرات دینے باہر نکلی۔ ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا۔ رانجھا نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔

یہاں سے آگے اس داستان پر بہت سے لوگوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کسی کے مطابق بیٹی کی ضد سے مجبور ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہو گئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا اور کوئی کہتا ہے کہ ہیر کو زہریلے سانپ کے ڈسنے پر علاج کی غرض سے رانجھے جوگی کے ساتھ بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ فرار ہو جاتے ہیں اور کھیڑے انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ کہیں لکھا ہے کہ جھنگ کہ قریب پہنچنے پر سیال انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

بے ادباں نہ سارا ادب دی گئے او جہاں تھیں وانجھے ہو

جیہڑی تھاں مٹی دے بھانڈے کدے نہ ہوندے کانجے ہو

جو مڈھ قدیم دے کھیڑے آہے کدے نہ ہوندے رانجھے ہو

جیں دل حضور نہ منکیا باہو دوہیں جہانے وانجھے ہو

(حضرت سلطان باہو)

ہیر رانجھا کی کہانی پر مبنی بھارت اور پاکستان میں متعدد بار “ہیر رانجھا“ نام کی ایک فلمیں بن چکی ہیں۔ پنجاب میں تین صدیوں تک اس کو شادی بیاہ، میلوں اور دیگر مواقع پر گایا اور سنا جاتا رہا ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں بزرگ شخصیات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ تو ایک کہانی ہے جسے اکثر لوگ حقیقت نہیں مانتے اور تاریخی طور پہ بھی اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت سچل سرمست، حافظ برخوردار اور دیگر صوفی شعرا نے ہیر رانجھا کا جو تصور پیش کیا وہ عاشقی کا تاثر نہیں دیتا بلکہ دونوں کے روحانی مرتبہ و مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔
ہیر کا مزار بھی جھنگ میں واقع ہے۔
واپس چناب کی طرف آتے ہیں۔

جھنگ سے ہی کچھ جنوب میں تریموں کے مقام پر کشمیر و پوٹھوہار کا پانی لے کردریائے جہلم اس میں آن ملتا ہے۔ اسی جگہ تریموں ہیڈ ورکس واقع ہے۔

1939 میں بنائے جانے والے اس بیراج سے نکلنے والی واحد نہر تریموں – سدھنائی لنک کینال ہے جو چناب کا پانی لے کہ خانیوال میں دریائے راوی پر بنے سدھنائی ہیڈورکس میں مل جاتی ہے۔
یہیں چناب کے دوسری جانب اٹھارہ ہزاری واقع ہے جس کے قریب تھل کا ریگستان ہے۔
کچھ جنوب میں سفر کریں تو ہم چناب کے ساتھ شور کوٹ شہر پہنچ جاتے ہیں۔ ۔

شور کوٹ جھنگ کی تحصیل ہے جہاں پاک فضائیہ کی اہم ائیر بیس موجود ہے۔ قلعہ شورکوٹ کی بنیاد مشہور راجا اشور نے رکهی تهی اس لیے علاقے کو شورکوٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر شور کوٹ چھاؤنی اور شور کوٹ چھاؤنی جنکشن واقع ہے۔ یہ شہر صوفی بزرگ سید بہادرعلی شاہ اور شاہ محمود غازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

شور کوٹ سے آگے گڑھ مہاراجہ ہے جہاں مشہور صوفی حضرت سلطان باہورح کا مزار واقع ہے۔ عہد شاہجہاں میں شور کوٹ میں پیدا ہونے والے صوفی بزرگ سخی سلطان باہوؒ کا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ آپ کے والد سپاہی تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو کی والدہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں ۔ سخی سلطان باہو کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ ”فنا فی ھُو” کے مطابق ان کا اسمِ گرامی باھُو الہاماً بتا دیا گیا۔ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔

جس چیز نے آپؒ کو شہرت دوام بخشی وہ ابیات باہو ہے۔ اس کے ہر مصرعے کے بعد ہُو آتا ہے جو ذات باری تعالیٰ  کے لیے مخصوص ہے۔ یہ خاص رنگ سخن باہو کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ آپ کی تمام شاعری تصوف سے مملو ہے۔ آپ کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو گڑھ مہاراجہ میں منایا جاتا ہے۔

یہاں احمد پور سیال کے پاس جھنگ کا اختتام ہوتا ہے اور یہ خانیوال کی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں ”ستیاں والا” کے مقام پر راوی اِس میں آ ملتا ہے۔ ضلع خانیوال اور مظفرگڑھ کی مختصر سی حد بندی کرتا ہوا یہ ضلع ملتان کے مغرب میں آ جاتا ہے جہاں دوسری طرف ضلع مظفرگڑھ واقع ہے۔

مظفرگڑھ کی طرف لنگر سراں کے قریب اس میں ”تونسہ پنجند لنک کینال” شامل ہوتی ہے جو دریائے سندھ پر تونسہ بیراج سے نکلتی ہے۔ دوسری طرف ملتان میں بوسن کا علاقہ ہے جو آموں کی پیداوار اور مویشی بانی کے لیے مشہور ہے۔

کچھ جنوب میں ملتان کینٹ کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ یہیں ملتان سے مظفرگڑھ اور کوٹ ادو جانے والی لائن اس پر شیر شاہ پل سے گزرتی ہے۔ شیر شاہ پل ملتان و مظفرگڑھ کے بیچ مرکزی رابطہ پُل ہے۔

پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ملتان، دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ قبلِ مسیح سے بھی پہلے کی ہے۔ اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو مولتان کو سب سے پہلے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔ غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا،جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی، خاندانِ تغلق، خاندانِ سادات، خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔ 1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا جو برصغیر کی آزادی تک جاری رہا ۔
اس شہر کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔
صوفیاء ، مزار و درگاہیں، سوہن حلوہ، ہندوؤں کا قدیم پرہلاد مندر، ملتانی کاشی گری، فنِ کھسہ سازی، گرد و گرما اور رسیلے آم۔

یہاں چناب کی دوسری جانب مظفرگڑھ واقع ہے جس کی بنیاد 1794 میں نواب مظفر خان شہید نے رکھی تھی۔ دو دریاؤں کی بیچ واقع یہ ضلع پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں سے ایک ہے جہاں بہترین کپاس، آم اور گندم پیدا ہوتی ہے۔

چناب اپنے اختتامی سفر پر رواں دواں ہے جہاں یہ خان پور، شجاع آباد، خان گڑھ ، فیض پور، شہرسلطان، شاہ پور اور مڈ والا سے ہوتا ہوا بہاولپور کی حدود میں آ جاتا ہے۔ یہاں خشک دریائے ستلج اس میں جا ملتا ہے اور کچھ ہی آگے مغرب میں مظفر گڑھ بہاولپور سرحد پرعلی پور کے قریب ” پنجند ہیڈ ورکس” آ جاتا ہے۔

پنجند ہیڈورکس پنجاب کے بڑے بیراجوں میں سے ایک ہے جہاں ایک زمانے میں پانچوں دریاؤں (روای ، چناب، ستلج، بیاس، جہلم) کے پانی کا سنگم ہوتا تھا۔

پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہا بھارت کے قصے کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ”پنجا ندا” (پانچ ندیاں) کے حوالے سے ہے۔ پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے، مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی تک تھا اور اسیسپت سندھو (ست دریاؤں کی سرزمین) کہلاتا تھا۔

1922ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت اس دریا پر ہیڈ ورکس کی تعمیر شروع ہوئی جو 1932ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس منصوبے کے تحت ہیڈ پنجند سے دو بڑی نہریں ”عباسیہ نہر” اور ”پنجند کینال” اور بعد ازاں نیو عباسیہ کینال نکالی گئیں جو ضلع بہاول پور و رحیم یار خان سمیت چولستان کے وسیع علاقہ کو سیراب کرتی ہیں۔ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث آبپاشی کا ایک بڑ ا ذریعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، ہیڈ پنجند سے نکلنے والی نہریں جو چولستان کو سیراب کرتی تھیں، ریت اور مٹی سے اٹ کر اپنی صلاحیت کھو چکی ہیں جس کی وجہ سے چولستان کا 64لاکھ ایکڑ رقبہ صحرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔

کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اوراس کے تاریخی مقامات اس ملک کی شناخت ہوتے ہیں جنھیں آنے والی نسلیں “ثقافتی ورثے” کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے جسے بابا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی اورابراہیم ذوق جیسے صوفی شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ پانچ دریاؤں کے ملاپ کا تصور ہی انسانی ذہن کے لیے دلچسپی کا حامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

ہیڈ پنجند کے پاس صرف ایک کمرے کا چھوٹا سا میوزیم موجود ہے جس کی صفائی بھی نہیں کی جاتی۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹورازم کی سرکاری ویب سائٹ پر ہیڈ پنجند جیسے تاریخی اور تکنیکی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقام کا کوئی ذکرتک موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ کوئی سہولیات میسر ہیں۔
اس بیراج سے آگے چناب کو دریائے پنجند بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں اس کی جنوب مشرقی جانب ضلع رحیم یار خان کی حدود شروع ہو چکی ہے جہاں اس کے کنارے زرخیز میدان واقع ہیں۔ مظفر گڑھ کی جانب ”سیت پور” چناب پر آخری بڑا قصبہ ہے۔ یہ قدیم قصبہ طاہر خان ناہڑ کے مقبرے کی بدولت جانا جاتا ہے۔ 1880 کی دہائی میں بنی شاہی مسجد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہاں سے آگے بل کھاتا چناب مختلف شاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور بستی گھاگھڑی پہنچتا ہے۔

بستی گھاگھڑی کے قریب ہی وہ مقام ہے جہاں ہماچل و کشمیر کا چندر بھاگا پنجاب کا چناب بن کہ خود کو سندھو ک سپرد کر دیتا ہے۔ سندھو ندی اسے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
یوں اپنے پانیوں میں محبت گھولے، ہماچل کی وادیوں کی خوبصورتی سموئے، کشمیر کے زعفرانی ذائقے لیئے، پنجاب کے میدانوں کی زرخیزی اوڑھے چندربھاگاسندھ میں ضم ہو جاتا ہے۔

وہ چاند تاروں کے سارے قصے

وہ ہیر رانجھے کی سب کہانی

وہ لیلی مجنوں کی چاہتوں کے

سنائیں گے جب فسانے خود کو

تو چپکے چپکے

پھر ان کے دل میں

چناب لہریں ابھار دے گا

تو سوہنی کچے گھڑے پہ بیٹھی

مسا فتوں کو سمیٹ لے گی

کہیں سے تیروں کی جھولی بھر کے

صاحباں تلملا اٹھے گی

اور تپتے صحرا میں کھوجتی سی

سسی کو پنوں تلاش لے گا

پھر اس طرح کی ہزاروں باتیں

ہزاروں قصے سنا کریں گے

اور چاند ماموں کی ٹھنڈی لو میں

گداز راتیں گزار دیں گے

اور اپنی اپنی انا کی خاطر

ہم اپنی چاہت کو مار دیں گے

پرانے قصے پرانی باتیں

Advertisements
julia rana solicitors

بھلا چکو جب تو لوٹ آنا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply