توہینِ حرم کی نوبت کیوں آئی؟۔۔ذیشان نور خلجی

برتر و اعلیٰ ہونے کا احساس جان لیوا ثابت ہوتا ہے اگر کسی فرد کی زندگی میں در آئے تو اس کا انجام فرعون کی دریائے نیل میں غرقابی کی صورت میں نکلتا ہے اور اگر کسی گروہ، قوم قبیلے کی اجتماعی ذہنیت پر حاوی ہو جائے تو پھر صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کی سالہا سال ذلالت پر منتج ہوتا ہے۔

کسی کو اپنے حسن پر ناز ہوتا ہے تو کوئی اپنی دولت پر اکڑتا ہے کسی کو ذات پات کی برتری کا احساس لے ڈوبتا ہے تو کوئی علم و فضل کے غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے بہرحال پوتر و نیک ہونے کا احساس سب سے خطرناک ہے۔ جب ہمیں دوسروں سے بو آنے لگے، اپنا آپ اجلا اجلا سا محسوس ہونے لگے اور باقی سب میلے نظر آنے لگیں۔ جب آپ ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیں اور مقابل دنیا چور نظر آنے لگے، لکھ رکھیے آپ کی بربادی و تنزلی کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔

حرم نبوی ﷺ کو احمقوں کی جماعت نے سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کیا اور پوری قوم سلگ کے رہ گئی۔ حرم مقدس ﷺ کا جو مقام و مرتبہ ہے وہاں اونچی آواز سے بولنا بھی توہین و تنقیص کے زمرے میں آتا ہے لیکن یہ سب دل کی باتیں ہیں کوئی سمجھے تو۔۔

بہرحال احمقوں کا صحنِ  نبوی ﷺ میں یوں واویلا کرنا بالکل بھی توہین نہیں ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ ان کی نیت بے ادبی کی نہیں تھی بلکہ ان عقل کے اندھوں کو ابھی تک معاملے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہو سکا اور کیوں کر ہو کہ جب آنکھوں پر پارسائی کا پردہ پڑ چکا ہو یا پھر سیاسی عصبیت آپ کو گونگا کر دے۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ کم عقلی میں اپنے ساتھ ساتھ ان دانشوروں کو بھی جانوروں کے ریوڑ  کی طرح گھیر گھار کر ہانکے جا رہے ہیں جو یہاں بیٹھے اگر مگر چونکہ چنانچہ کی جگالی میں مصروف ہیں۔

یہ لوگ واقعی توہین کے مرتکب نہیں ہوئے یہ تو وہاں اپنے تئیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پرچار کر رہے تھے۔ جی ہاں، اسی کینسر کا پھوڑا مقدس سرزمین پر پھٹا ہے۔ جب آپ کو اپنے سوا باقی تمام دنیا چور لگنے لگے جب درباری اور بھانڈ قسم کے علما  کرام آپ اور آپ کے لانے والوں کو خدائی انعام قرار دینے لگیں تو پھر بہت جلد آپ قدم بڑھا کے اس منصف کی کرسی پر بھی براجمان ہو جاتے ہیں جس کا قلمدان صرف خدا کو جچتا ہے۔ جان لیجیے خدا کے حکم امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور کسی کو چور ڈاکو ڈکلئیر کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

تاریخ اٹھا کر دیکھیے نبی ﷺ کی وفات کے بعد جب جب حرم مکہ و مدینہ پر حکمرانوں نے چڑھائی کی، درباری مُلّا تو ان کے ساتھ تھے ہی لیکن وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےجھنڈے تلے ہی صف آراء تھے۔ کیا اسلامی ریاست کے باغیوں کے خلاف امیر المومنین کی حرم پاک میں لشکر کشی حرام تھی؟ جب کبھی حرم پاک کی بے حرمتی کی گئی پیچھے یہی سوچ کار فرما تھی کہ ہم یعنی حملہ آور نیک ہیں اور مقابل جو کہ حرم میں پناہ لیے ہوئے ہیں، مجرم و گناہ گار ہیں بے شک تحریک انصاف کے احمق بھی اسی بے وقوفی میں مارے گئے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تحریک انصاف کے حامی بھی ایسی ہی تاویلات پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ تو پھر جان لیجیے کہ خدا اب آسمان سے ابابیلوں کے جھنڈ نہیں بھیجنے والا۔ الہام کا دروازہ بند ہو چکا اب کوئی رسول خدا کی عدالت لگا کر فیصلہ نہیں سنانے والا۔ پنجابی کا مقولہ ہے ” رب ڈانگاں  نئیں ماردا ” یعنی کسی غلط کام پر خدا لاٹھی سے نہیں مارا کرتا۔

تحریک انصاف کے چند احمقوں نے یہ گھٹیا اقدام کیا اور پارٹی کی طرف سے اس کام کو سراہا گیا لیکن جب قوم کی طرف سے اس کی بھرپور مذمت کی گئی تو دو دن بعد ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے خان صاحب نے تھکا تھکا سا احتجاج ریکارڈ کروا دیا۔ کوئی کسی کے دل کا حال نہیں جانتا لیکن تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لکھ رکھیے اگر تحریک انصاف اپنی زعم پارسائی سے باز نہ آئی تو جس تیزی سے یہ ابھر کر سامنے آئی تھی اس سے بھی زیادہ تیزی سے یہ کہیں وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply