فیس بکی ادیب ۔۔عابد آفریدی

گزشتہ زمانے میں اہل قلم اور ادب سے منسلک لوگوں کی گفتگو, طرز زندگی کا اپنا ہی ایک جداگانہ انداز ہوتا تھا۔ شاہجہاں و اکبر دو کمرے کے مکان میں رہنے والے ادیب کی وضعداری سے متاثر ہوجاتے۔ ان کے سنگ بیٹھک کو اپنے  لیے حق اعزاز سمجھتے تھے۔جب کہ  آج اس جدید دور کے نئے  ڈیجیٹل ادیبوں کا معاملہ ہی عجب ہے۔ لباس، گاڑی، گھڑی سب تو بہترین، مگر طبیعت میں حسن و اخلاق کا بے تحاشا فقدان ہے۔

ایک بڑے فیس بکی ادیب جن کی لکھائی سے ہم  بے حد متاثر تھے۔ پشاور پہنچ کر ان سے فون پر رابطہ کیا۔ کیا نہیں بلکہ رچایا، بیس فون کالز  کے بعد جاکر  جناب نے  فون اٹھایا۔

ہم عرض گزار ہوئے کہ حضور بندہ کراچی سے براستہ پشاور پنڈی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد رکھتا ہے۔ اگر اجازت مرحمت ہو تو اگلی گاڑی کی سیٹ پکڑ کر حاضر ہوجائے؟۔۔آپ نے کچھ سوچا ‘ہمم ” کی ایک لمبی تان کھینچ کر کہا۔۔ تم نکلو میں دیکھتا ہوں۔

اس جواب نے ہمیں نہ  تو پشاور کا چھوڑا نہ  ہی پنڈی کا۔ ہم نے زور دیا کہ آجاؤں  ملاقات ہوجائے گی ؟ ۔۔کہا اوکے ٹھیک ہے پنڈی پہنچ کر مجھے کال کرنا۔

فلائنگ کوچ نامی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ کیا  ہی اس کا سفر تھا،اور  کیا  ہی اس کی فلائینگ تھی۔ گاڑی فل تھی، ڈرائیور نے لالچ میں آکر ہمیں آگے اپنے ساتھ بیچ والی اس ممنوعہ چھوٹی سیٹ پر بٹھا دیا جہاں پسنجرز کو بٹھانے پر موٹروے پولیس کی جانب سے پابندی عائد تھی۔ اس پر بیٹھنے کے لیے ضروری ہے  کہ ہینڈ بریک اور گیئر آپ کی ٹانگوں کے درمیان میں ہو۔ہر بار گیئر  تبدیل کرنے کی صورت آپ کو  ذرا پھیلنا اور سکڑنا پڑے۔

سفر کے دوران جہاں کہیں انھیں کیمرہ یا موٹروے پولیس نظر آجاتی تو ہم سےکہتے۔ استاد غوطہ لگاؤ۔۔ یعنی جھک جاؤ۔

شروعات میں ڈرایئور ہم سے بڑے مودبانہ انداز میں کہتا بھائی  ذرا جھک جاؤ آگے پولیس ہے۔ ہم جھک جاتے۔جب خاصا وقت گزرا ،کافی سفر طے کرلیا۔ تو ڈرایئور نے بولنے کی اس زحمت کو فضول جانا، جہاں اسے شبہ ہوتا کہ  آگے پولیس یا کیمرہ ہے ،اپنا ہاتھ ہماری گردن پر ڈال کر بنا بتائے  آگے کو غوطہ دے دیتا۔

دو ایک بار تو ہمیں عین اس وقت غوطہ دیا۔ جب ہم ساتھ والے مسافر کو معاشرتی رویوں پر لکھا ہوا  تھیسس سنارہے تھے۔ہر لحاظ سے ہمارا پارہ چڑھ رہا تھا۔ ہر بار کے ان غوطوں اور گیئر  تبدیل کرنے کے نتیجے میں خود کو پھیلانا سکیڑنا ۔۔۔ تنگ آگیا تھا۔ نیچے سے وہ سیٹ جس کے ہم سوار تھے اس سے بھی برابر دھیمی آنچ کی تپش آٹھ رہی تھی۔ اپنی عزت نفس کو یوں مجروع ہوتا دیکھ کر جیسے میں کوئی مجبور اشتہاری ہوں جسے بارڈر پار  کرایا جارہا ہو۔ ہم نے فیصلہ کیا جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اب نہ جھکنا ہے، نہ بکنا ہے۔

پنڈی سے بس ایک ادھ کلومیڑ ہی قبل جب ڈرائیور نے ہماری گردن پر ہاتھ ڈال کر ہمیں بنا بتائے  آگے کو جھکانا چاہا تو ہم بھی کسی تازہ دم فوجی  اہلکار کی طرح تن گئے۔ حیران ہوکر میری جانب دیکھتے ہوئے  کہا۔۔ بھائی گردن جھکاؤ  آگے پولیس ہے۔

ہم نے کہا نہیں جھک سکتی!!!

اس نے بگڑتے ہوئے پوچھا کیوں نہیں جھک سکتی ۔

ہم نے بھی بگڑتے ہوئے کہا ”کیونکہ گردن میں سریا  آگیا ہے۔

اس سے پہلے کہ مزید بات بگڑتی ، ہم نے اپنی شکل کو ایسا بگاڑا ،کہ ڈرائیور نےخاموشی میں ہی عافیت جانی ۔ اسں دوران پولیس اہلکار گاڑی کے سامنے  آئے اور ہمیں گاڑی سے اتار کر ایک توانا سہ پرچہ ڈرائیور کو دیا جس کا جرمانہ پانچ ہزار تھا۔ اور ہمیں دوسری گاڑی میں قریب پنڈی ڈراپ کروا دیا۔

مطلوبہ فیسبکی ادیب کو ہم نے فون کیا کہ ہم پنڈی پدھار چکے ہیں۔ بتائیے  اب کہاں آنا ہے۔

یہ سن کر انہوں نے پھر ہوہوں کیا ۔۔ جیسے ہم وقت سے پہلے پہنچ گئے ہوں ۔ بہرحال ٹیکسی والے سے ان کی بات کروائی، تین سو روپے بہ عوض منزل مقصود طلب کیے  گئے۔ جو ہم نے نا چاہتے ہوئے بھی ان کے حوالے کردیے۔

جس علاقے میں جناب  کا گھر تھا۔ وہاں کی سڑک گاڑی چلانےکے لیےتو بالکل بھی نہیں البتہ کسی کرپٹ لیڈر کو گھسیٹنےکےلیےبہت موزوں تھی۔سڑک کے نشیب و فراز اس پر چھوٹی چھوٹی جھیلیں، کناروں پر گندگی کے ڈھیر، یہ سب دیکھنے  کے بعد پہلی بار مجھے اپنی جنم بھومی اورنگی ٹاؤن  پر فخر ہوا۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ کوئی ہم سے بھی گیا گزرا ہے۔

جناب کو  دوبارہ فون کیا، آپ نے گلی کی نشانی بتائی، یعنی نکڑ پر ایک گدھا بندھا ہوگا۔ گلی کے نکڑ پر ہی گدھے کو انتہائی غیر اخلاقی انداز میں کھڑا پایا  تو دوبارہ آپ کو فون کیا۔ آپ نے دروازے کا رنگ بتایا۔ ہم نے اسی دروازے پر دستک دی تو بچے کو بھیج کر اس سے  پتا کروایا  کہ ہم کون ہیں ۔ کوئی دس منٹ بعد آپ قریب کے ایک دوسرے  دروازے سے نمودار ہوئے جو یقیناً  آپ کا مہمان خانہ تھا۔سلام کلام کے بعد سامنے والے صوفے پر پاؤں  پے  پاؤں رکھ کر اپنے سیل  فون میں مصروف ہوگئے۔۔اور  ہمیں ہماری باتوں کا جواب صرف ہوں، ہوں کی صورت ملتا رہا ۔۔ کافی دیر تک یہ گفتگو جاری رہی صرف ایک بار ہی پوچھا۔ چائے چلے گی؟۔ ہم نے تکلف کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جی بس شکریہ آپ سے ملاقات ہی سب کچھ ہے۔۔ مجال ہے جو اس کے بعد آپ نے دوبارہ پوچھا ہو۔ خود کے سوا تمام فیسبکی لکھاریوں کو فضول کہا۔ اپنی تحاریر چرانے کا الزام لگایا۔

ہم سے بھی پوچھا کہ” تم بھی تو لکھتے ہونا” ہم نے کہا جی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے سر افسوس کے عالم میں ہلاتے ہوئے فرمایا ‘لکھنے والے پڑھنے والوں سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ ہر دس جماعتی پاس نے خود کو لکھاری سمجھ لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین جانیں اتنے ٹور ہم نے انور مقصود و دیگر کے نہیں دیکھے تھے۔ جو ان صاحب نے دکھائے۔آپ کا یہ رویہ دیکھ کر میری نظروں کے سامنے قائد اعظم کی وہ تمام تصویریں آگئیں  ۔ جو ان نوٹوں پر تھیں  جو یہاں تک پہنچنے کی پاداش میں خرچ ہوئے۔ آئندہ   کے لیے کسی فیسبکی ادیب سے اس قدر انسیت کو حرام جانا کہ جس کے  بدلے میں یوں منہ کی کھانی پڑے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply