بحرانوں سے نجات۔۔محمد اسد شاہ

صدر مملکت کے منصب پر براجمان ڈاکٹر عارف علوی نے منتخب وزیراعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا – حلف برداری کی تقریب سے دور رہنے کی خاطر مبینہ طور دانت درد کا بہانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ڈاکٹر نے دو دن تک آرام کرنے کا مشورہ دیا – چنانچہ   وزیراعظم سے حلف لینے کی ذمہ داری سینیٹ کے چیئرمین نے ادا کی – پھر علوی صاحب نے منتخب وزیراعظم کی ایڈوائس کے باوجود پنجاب میں تحریک انصاف کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو برطرف کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا – الٹا عمر سرفراز کو ہدایت کر دی کہ گورنر کے طور پر کام جاری رکھیں – یاد رہے کہ گورنر دراصل وفاقی حکومت یعنی وزیراعظم کا نمائندہ ہوتا ہے ، لیکن علوی صاحب نے ایک ایسے شخص کو وزیراعظم کے نمائندہ کے طور پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے جو دراصل وزیراعظم کا نمائندہ نہیں ہے – یہ کارروائی بذات خود عارف علوی صاحب کے منصب اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے – ان کا یہ عمل بظاہر آئین اور آئینی منصب کے تقاضوں کے برعکس ہے – صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہے ، لیکن یہاں علوی صاحب اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے انکاری ہیں ، یا پھر معذور ہیں – دونوں صورتوں میں وہ اس عہدے پر اپنی اہلیت کو مشکوک بنا رہے ہیں – دوسری طرف ان کی ہدایت پر گورنر رہنے والے عمر سرفراز نے بھی پنجاب کی منتخب صوبائی حکومت اور اسمبلی کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا کر رکھی ہیں – پورے صوبے کو جان بوجھ کر حکومت سے محروم رکھا جا رہا ہے ، اور مصنوعی طریقے سے ایک پیچیدہ آئینی بحران پیدا کیا جا رہا ہے – یہیں پر اکتفا نہیں – عارف علوی نے وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے بھی انکار کر دیا – ایک مرتبہ پھر یہ ذمہ داری سینیٹ کے چیئرمین کو ادا کرنا پڑی – سوال یہ ہے کہ اگر صدر مملکت کے منصب پر بیٹھا شخص اپنی ہر آئینی ذمہ داری سے انکاری یا معذور ہے تو پھر وہ اس منصب پر موجود ہی کیوں ہے؟ کیا یہ منصب مملکت کی امانت ہے یا عارف علوی کی ذاتی ملکیت ہے ؟ اگر تو وہ اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی ہدایات پر چل رہے ہیں تو انھیں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے نہیں ، بلکہ ملک کے صدر ہیں – اس سے قبل اسی ماہ کے آغاز میں قومی اسمبلی میں تب کے ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر عین ووٹنگ والے دن ، ووٹنگ کرائے بغیر ہی تحریک عدم اعتماد کو ذاتی حیثیت میں مسترد کرنے کا اعلان کر کے پورے ملک ، بلکہ خود آئین پاکستان تک کو حیرت میں مبتلا کر دیا – ایسی کوئی روایت دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی – تحریک کو مسترد یا منظور کرنا تو پارلیمنٹ کا اختیار تھا – لیکن کئی سالہ طویل سٹے آرڈر پر کام کرنے والے ڈپٹی سپیکر نے دراصل پارلیمنٹ کے اس اختیار کا انکار کر کے آئین کی صریح خلاف ورزی کی ، جو بعد میں سپریم کورٹ میں بھی ثابت ہو چکی – اس دن عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس جاری کر دی – جب کہ آئینی طور پر اس وقت خاں صاحب کو بھی ایسی ایڈوائس دینے کا اختیار نہیں تھا ، کیوں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع تھی اور اس پر ووٹنگ ہونا باقی تھا – ایسے مرحلے پر وزیراعظم ایسی کوئی ایڈوائس دے ہی نہیں سکتا – وزیراعظم کے پاس تب تک صرف دو ہی راستے تھے کہ یا تو اسمبلی میں شفاف طریقے سے اپنی اکثریت ثابت کرتے یا مستعفی ہو جاتے – لیکن خاں صاحب نے یہ دونو آپشنز پس پشت ڈالتے ہوئے وہ کام کیا جس کا آپشن ان کے پاس تھا ہی نہیں – اس غیر آئینی ایڈوائس پر تو عارف علوی صاحب نے فوراً یعنی شاید صرف ایک یا دو ہی منٹوں میں ہی عمل کر دیا – اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان کی اپنی ہی خواہش پر انھیں وزیراعظم کے طور پر کام جاری رکھنے کا اختیار بھی دے دیا – عمران وزیراعظم کے منصب پر کیسے کام جاری رکھ سکتے تھے جب کہ منتخب پارلیمنٹ آئینی و دستوری طور پر انھیں کام سے روک رہی تھی – یہ معاملہ جب سپریم کورٹ میں پہنچا تو پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے سے بھی واضح ہو گیا کہ عارف علوی ، قاسم سوری اور عمران خان ، تینوں نے غیر آئینی کام کیے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کیا –

Advertisements
julia rana solicitors

ان حالات میں سیاسی ، صحافتی ، اور آئینی ماہرین بہت سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر عارف علوی منصب صدارت پر کیوں براجمان ہیں ، اور ان کے پیش نظر مقاصد آخر کیا ہیں – کیا وہ کسی مخصوص ایجنڈے پر ہیں ، جو آئین پاکستان اور منصب صدارت کے تقاضوں سے متصادم ہے ؟ اگر وہ اس منصب کے تقاضوں کو سمجھنے اور نبھانے سے قاصر ہیں تو اس سے علیحدہ کیوں نہیں ہو جاتے – دیکھا یہ گیا ہے کہ اس منصب پر وہ ملکی ریاستی و حکومتی معاملات میں سہولت کار بننے کی بجائے مشکلات پیدا کرتے اور روڑے اٹکاتے ہیں – اگر وہ اپنی ذاتی سیاسی وابستگی کو آئین پاکستان سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں تو اپنی وابستگی ہی کی طرف لوٹ کیوں نہیں جاتے؟ جب کہ حلف تو انھوں نے آئین پر عمل کرنے کا اٹھا رکھا ہے – وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب تو گزشتہ روز باقاعدہ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر عارف علوی سے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ باعزت طریقے سے منصب صدارت خود ہی چھوڑ دیں – ورنہ نظام ریاست و حکومت چلانے کے لیے انھیں اس منصب سے ہٹانے کا کوئی اور آئینی و قانونی راستہ اختیار کرنا پڑے گا ، اور ایسی صورت میں ممکنہ طور پر ڈاکٹر عارف علوی شرمندگی محسوس کریں گے – اس سلسلے میں حکومت کے پاس دو راستے ہیں – ایک راستہ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے حالیہ اقدامات اور کارروائیوں کی فہرست مرتب کر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کے مواخذہ کی تحریک پیش کر دی جائے – اس تحریک کے منظور ہونے کے امکانات بہت واضح ہیں – کیوں کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی پارٹی کے اکثر ایم این ایز اسمبلی سے استعفیٰ دے چکے ہیں – چنانچہ   قومی اسمبلی کی بہت غالب اکثریت اب ان لوگوں کی ہے جو ڈاکٹر عارف علوی سے خوش نہیں ہیں – علاوہ ازیں سینیٹ میں تو ویسے بھی مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن سمیت ان جماعتوں کی بہت غالب اکثریت ہے جو ڈاکٹر صاحب اور ان کی پارٹی سے شدید اختلاف رکھتے ہیں – ان حالات میں مواخذہ کی تحریک منظور ہونا نہایت آسان کام ہے – ڈاکٹر صاحب کو منصب سے الگ کرنے کا دوسرا راستہ عدالتی ہے – ابھی چند ہی دن قبل سپریم کورٹ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے میں خود عمران خان اور قاسم سوری کے علاوہ ڈاکٹر عارف علوی بھی آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں – سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اپنے فیصلے میں اس امر کو تسلیم بھی کر لیا – چنانچہ اسی عدالتی فیصلے کی بناء پر علوی صاحب کے خلاف بہت مضبوط ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے – امکان یہ ہے ایسے کسی ریفرنس کی سماعت زیادہ طوالت اختیار نہیں کرے گی ، کہ آئین کی صریح خلاف ورزی تو عدالت میں پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے –
بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی موجودہ منتخب حکومت کے ساتھ چلنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں ، اور حکومت کے لیے بھی شدید مشکلات پیدا کر رہے ہیں – وہ ہر ہر قدم پر جمہوریت اور آئینی معاملات کو بحرانوں سے دوچار کرنے پر تلے نظر آتے ہیں – ایسے میں اگر ڈاکٹر صاحب منصب صدارت از خود نہیں چھوڑتے ، اور اپنے آئینی فرائض بھی ادا نہیں کرتے ، تو وفاقی حکومت اور پارلیمان کو جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنا ہو گا تا کہ نظام حکومت درست انداز میں رواں دواں ہو سکے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply