یہ نفرت کہیں ملک کو جلا نہ دے۔۔ابھے کمار

ان دنوں ملک کے مختلف حصو ں سے بڑی ہی خوفناک خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ جہاں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر مسمار کیا جا رہا ہے، وہیں دھرم کی آڑ میں دائیں بازو کے عناصر فرقہ وارانہ تشدد کو انجام دے رہے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت مسلح شر پسندوں کےجلوس مسلم علاقوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر بھی حملہ کیا گیا ہے اور وہاں زبردستی بھگوا پرچم لہرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فرقہ پرستوں کی یہ غنڈہ گردی ملک کی راجدھانی دہلی سمیت مختلف علاقوں میں دیکھی گئی ہے، مگر ابھی تک اسے روکنے اور شر پسندوں کو پکڑنےکی کوئی موثر کوشش نہیں ہوئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی نا اہلی اور ارباب اقتدار کی خاموشی کےبیچ ، حزب اختلاف نے اس معاملہ پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ اپوزیشن کی بات درست ہے کہ ان شرپسندوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ بات بات پر ٹیوٹ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک ان حملوں کے حوالے سے خاموش ہیں۔ الیکشن کے دوران سب کا ساتھ اور سب کا وِکاس کا نعرہ تو وہ خوب دیتےہیں، مگر جب اس پرعمل کرنےکا موقع آتاہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ملک کے اندر فرقہ پرست بے لگام گھوم رہے ہیں۔ ان کو نہ تو پولیس کا ڈر ہے اور نہ ہی ان کے دلوں میں قانوں کی کوئی عزت ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب سرکردہ قیادت کی سرپرستی انہیں حاصل ہے تو نیچے بیٹھے سپاہی اور عملہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائیں گے؟ بے حد افسوس کی بات ہے کہ ارباب اقتدار نے ان خطرات کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے، بلکہ اُلٹا یہ بھی افواہ پھیلائی ہے کہ ایسی بات کہنے والے ملک کے دشمن ہیں جو سرکار کو جا ن بوچھ کر بدنام کر ر ہے ہیں۔ جب سُلتگی ہوئی آگ کو بجھانے کے بجائے آگ کے وجود سے ہی انکار کیا جائے ، تو سمجھ لیجیے ملک کو تباہ کرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ ہزاروں سالوں سے ملک میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، مگر جب سے ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس اوربی جے پی وجود میں آئی ، تب سے ہندووٴں کےلیے مسلمان خطرہ بن گئے! کوئی یہ سوال بھگوا لیڈروں سے پوچھے کہ جب ۱۰۰ سال پہلے زعفرانی تنظیم نہیں تھی، تب ہندووٴں کی حفاظت کون کررہا تھا؟ جس ملک میں ۸۰ فیصد ہندو ہیں اس ملک میں ۱۴ فیصد مسلمان کیسے خطرہ بن سکتے ہیں؟

سچ پوچھیے تو ملک کے حالات کو دیکھ کر بڑی مایوسی ہو رہی ہے۔ بھگوا طاقتیں خود کو ملک اور ہندو سماج کا سب سے بڑا محافظ کہتے نہیں تھکتی ہیں۔ مگر جتنا انہوں نے دیش اور عوام کو نقصان پہنچایا ہے ، شاید کسی اور نے نہیں۔ ان کے راج میں پریشان صرف مسلمان ہی نہیں ہیں، بلکہ زیاہ تر لوگ، جو غریب اور محکوم ہیں، تڑپ رہےہیں۔ عوام کے مسائل کو دور کرنےکےبجائے، ارباب اقتدار نے نفرت پھیلانے والوں کی ایک فوج تیار کر لی ہے۔جنتا کےدماغ میں زہر گھولنے کےلیے انہوں نےسوشل میڈیا اور ٹی وی چینل اور بڑے اخبار کو خرید لیا ہے۔ فلاحی کاموں کا پیسہ اشتہار پرخرچ ہو رہا ہے۔ سرکار اور سرمایہ داروں کاپیسہ کھانے والا میڈیا دن رات ہندو بنام مسلمان پر بحث کرتا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی کو سردی بھی لگ جائے تو مین اسٹریم میڈیا اسے بڑی خبر بناتاہے، جبکہ بھارت میں مہنگائی، بے روزگاری اور فاقہ کشی پر بات کرنے والا ان کو اینٹی نیشنل دکھتا ہے ۔آج ملک کے اندر میں ماحول خراب کرنے والے میں فسادی اور صحافی پیش پیش ہیں ۔ خاص کر ٹی وی چینل کے اینکر دن رات زہراُگل رہے ہیں۔ ملک میں پریس کونسل نام کا ادارہ مرا پڑا ہے اور عدلیہ سست پڑی ہے۔ بغیر فیکٹ کےذمہ دار شخص بھی کچھ بھی کہہ رہا ہے اور اس سے ذمہ داری کے فرائض کے بارے میں کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔

سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے ہے کہ ہندو سماج کے اندر  بہت ساری افواہیں پھیلائی جا رہی ہے۔ ان دنوں مجھ سے میرے بہار کے ایک رشتہ دار نے پوچھا کہ آخر جےاین یو میں ہندووٴں کو پوجا کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ جے این یو میں کسی کو کبھی بھی پوجا کرنے سے نہیں روکا گیا ہے۔ میں نےجے این یو میں نو سال گزارے ہیں، اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیمپس کے اندر سروستی ، دُرگا اور گالی پوجا سالوں سے ہوتی ہے۔ مگر پہلے کبھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔ کچھ لوگ جان بوچھ کر دھرم کےنام پر ہنگامہ کرنا چاہتے ہیں اور نفرت کی آگ میں تیل ڈال رہے ہیں۔ انہیں لوگوں نے جان بوچھ کر گوشت کا تنازع کھڑا کیا اورمار پیٹ بھی کی۔ مگر میری بات کو بیچ سے کاٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے این یو کے طلبہ کو جے شری رام سے بہت دقت ہے مگر انہیں اللہ اکبر کا نعرہ دینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی! یہ بات سُن کر میں نے اپنا سر پکڑ لیا ۔ کئی گھنٹوں تک میں سوچتا رہا کہ ملک کہا ں جا رہا ہے؟ جے این یو کے بارے میں کیا کیا افواہ پھیلائی جا رہی ہے؟ جے این یو، لیفٹ، کانگریس کو مسلمان سے جوڑ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ حال کے دنوں میں پروپگینڈہ پر مبنی فلم کشمیر فائلز میں بھی جےاین یو ، اپوزیشن اور مسلمان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پ
۲۰۲۲ کے عام انتخابات اور آئندہ اسمبلی انتخابات کےمد نظر بھگوا طاقتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ نفرت کی یہ آگ سلگتی رہے۔ وہ دن رات مسلمانوں کومشتعل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وہ کچھ کریں اور پھر ان کو مزید سختی کرنے کے لیے موقع مل جائے۔ خوشی کی بات یہ ہےکہ مسلمانوں نے ابھی تک زبردست صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس طرح کھان پان ، حجاب، ااذان کو لےکر ہر روز واویلا مچایا جا رہا ہے وہ سب ملک کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کو لگتا ہے کہ ان کی حکمت عملی ہمیشہ کامیاب ہوتی رہے گی۔ اکثریت طبقہ کا ووٹ لینے کے لیے اقلیتوں کو کھلنائک بنا کر پیش کرنے میں ، بی جے پی ابھی تک کامیاب رہی ہے، مگر وہ یہ بھول جا رہی ہے کہ ان کی سیاسی جیت نے بھارت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ صر ف مسلمان ہی نہیں، آج دلت بھی پریشان ہے۔ آدی واسی کے جل ، جنگل اور زمین کو چھینا جا رہا ہے۔ پسماندہ طبقات کو دو قت کی روٹی کےلیے دن رات کام کرنا پڑ رہا ہے۔ مزدور کی مزدوری کم ہو رہی ہے، جبکہ ان کےکام بڑھ رہے ہیں۔ کسان کی حالت اتنی خراب ہے کہ جتنا پیسہ وہ زراعت میں خرچ کرتےہیں ، اتنابھی کئی دفعہ وہ نکال نہیں پاتے ہیں۔ سچ ہے کہ اعلیٰ ذات کےلوگ اداروں پر قابض ہیں ، مگر بڑی سچائی یہ ہے کہ اعلیٰ ٰ ذات کی ایک بڑی آبادی غربت کی  دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ کچھ ہی دن پہلے جب میں گاوٴں سے دہلی لوٹ رہا تھا تو میں نے اپنی ایک بوڑھی چچی کو سلام کیا ، تو دعا دینے کے بعد انہوں نے مجھ سے سر میں لگانے والا ایک بوتل ٹھنڈا تیل خریدنے کو کہا۔ چجی ذات کی سیڑھی پر سب سےاوپر بیٹھی ہوئی ہیں، پھر بھی تیل خریدنے کو پیسہ نہیں ہے۔ گاوٴں کے نوجوان تعلیم پانے کے لیے   مشکلوں سےگزر رہےہیں۔ غربت زمینی حقیقت  ہے، مگر ہندو بنام مسلمان کو اصلی لڑائی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

سچ ہے کہ بھگوا اشتعال انگیزی کا نشانہ مسلمان ہیں۔ مگر مسلمان یہ نہ سمجھے غیر مسلمانوں کی حالت اچھی ہے۔ زیادہ تر لوگ سرکار کی پالیسی سے پریشان ہیں۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے کرایہ سے لے کر ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ معیشت بیمار ہے ، مگر اس کا صحیح علاج کرنے کے بجائے، بھگوا حکومت ہندو بنام مسلمان کا کھیل کھیل کر توجہ ہٹا رہی ہے ۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہو رہے حملوں کے خلاف غیر مسلمان آگےآئیں ۔ مسلمان کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے حالات دیگر محکوم طبقات کے حالات سے جدا نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ہم سمجھ لیں تو بھگوا فرقہ پرستوں کی ایک نہ چلے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply