مجھے فیمینسٹ نہ کہو۔۔سلیم مرزا

بیگم کے آپریشن کے بعد میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر ان کو شام کی واک منع کردے گا ، مگر انہیں پھر سے سیر کرنے کا لکھ دیا گیا ۔
“بیگم کی بلا، شوہر کی ٹنڈ ”
چنانچہ میں وہ گیہو ہوں جو گُھن کے بغیر بھی پِس جاتا ہوں ۔

ہماری خوش قسمتی کہ کامونکے میں سیر کیلئے کوئی باضابطہ پارک نہیں ہے، ہم دونوں جی ٹی روڈ کے کنارے کنارے شہر تک جاتے ہیں اور وہاں سے واپس آتے ہیں ۔ ٹریفک کے اصول کی پاسداری کرتے ہوئے مخالف سمت میں چلتے ہیں ۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ کوئی موٹر سائیکل رکشہ یا ٹریکٹر ٹرالی والا ہمارے عقب سے آکر ہمارا ازدواجی تراہ نکال دیتا ہے ۔

اب تراہ کے  ساتھ گالی کا نکلنا پنجاب کا کلچر ہے ۔میں گالی میں حسبِ  ذائقہ رکشے والے کی بہن کو ٹرک والے کے ساتھ جوڑ دیتا ہوں ۔یا ٹریکٹر والے کی ماں کو ٹرالی سے تشبیہ دے دیتا تھا کہ یہ پارلیمانی روایت ہے ۔
صورتحال اور وہیکل کے حساب سے کوئی نہ کوئی گالی بہترین فٹ ہوہی جاتی ہے ۔
دو چار دن تو بیگم یہ حکومتی اعداد وشمار سنتی رہیں ۔
پھر یوں ہوا کہ میرے گالی دینے سے پہلے بیگم گالی دینے لگی۔وہ رکشے   والے کے باپ کو موٹر سائیکل والے کے بھائی کے ساتھ، اور ویگن والے کے بہنوئی کو سگے سالے کے ساتھ نتھی کردیتی ۔
میں اس ترکیب استعمال پہ  ہکا بکا رہ گیا، بیگم نے خود ہی وضاحت کردی “طاہرہ کاظمی لکھتی ہیں کہ ساری گالیاں عورتوں کیلئے ہی کیوں” ؟
جبکہ قصوروار یا جھگڑا کرنے والے ہمیشہ مرد ہوتے ہیں ،گالی اسی کیلئے ہونی چاہیے، نہ کہ اس کے گھر میں بیٹھی ماں، بہن یا بیٹی کیلئے۔ ”
میں چپ رہا اور دل ہی دل میں گالیوں کی مونث کو مذکر سے بدل کر سوچتا رہا ،میرا تو ہاسا نکل گیا ۔
واپس گھر پہنچ کر فوراً طاہرہ کاظمی کی کتاب ڈھونڈی، فیضان سے ملی ۔
فیضان فیمینسٹ نہیں ہے ۔ گلی کی خواتین اسی سےسودا سلف منگواتی ہیں۔ کتاب کے حصول کے بعد گھر میں کونا تلاش کرکے پڑھنا شروع کی تو پنڈورا پیٹی کھل گئی ۔

میں حیران رہ گیا کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں اور روئیے جنہیں ہم مرد روزمرّہ کا حصہ بنائے ہوئے ہیں ۔خواتین کیلئے کتنے آزار کا باعث بنتے ہیں ۔ہم سوچتے بھی نہیں کہ سالہا سال سے انہی رویوں کو روایت بنا کر ہم نے اپنے اردگرد کی خواتین کی زندگی کو کس قدر دشوار بنادیا ہے ۔۔۔طاہرہ نے چھوٹےچھوٹےواقعات کے تناظر میں بڑی بڑی ناانصافیوں کی نشاندہی کی ہے ۔وہ لکھتی ہیں
“بے پناہ طاقت کا نشہ اور غرور مرد کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کے ایسے فیصلے کرواتا ہے، جن کی زد میں آکر وہ نہ صرف خود زخمی ہوتا ہے، بلکہ ناخوش زندگی گذارتا ہے ”

“میں فیمینسٹ نہیں ہوں ”
پڑھ کے میں کافی شرمندہ ہوا . بہت ساری ایسی باتیں جو ہم نے بلاوجہ کلچر اور غیرت سے جوڑ رکھی ہیں ۔
ان کا کسی بھی آئیڈیل معاشرے یا مذہب کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔
بالکل ایسے ہی جیسے ٹریفک کے کسی اصول کا پاکستانی سڑکوں سے کوئی واسطہ نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں جب چھوٹا بچہ تھا مداری دیکھنے کے چکر میں مجمع باز حکیم کے دائرے میں بھی جاگھستا تھا ۔
جنسی امراض کی سمجھ تو نہیں تھی مگر مزہ بہت آتا جب دوائی بیچنے والا پٹھان کہتا “پتھر پہ ماروگے تو، ٹن ٹن کی آواز آئے گی ”
یا کوئی ادھیڑ عمر دیہاتی عورت غلطی سے مجمع میں گھس آتی تو کہتا “بی بی، باہر جاؤ، ادھر تمہارے دشمن کا بات ہورہا ہے۔ ”
میں اس مجمع میں گھنٹہ بھر اکڑوں بیٹھا رہتا صرف اس نامرد کی تصویر دیکھنے کیلئے جس کو دکھانے کا وعدہ پٹھان نے مجمع کے شروع میں کیا ہوتا ہے ۔
مگر طاہرہ کاظمی نے اپنی کتاب میں وہ نامرد بنا کہے ہی دکھادیا ۔۔
اس کیلئے نہ  تو گریباں میں جھانکنا پڑتا ہے۔ اور نہ ناڑا کھول کر دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔
بس دماغ پہ زور دینا پڑتا ہے ۔۔
ہم مجمع باز کی طرح عورت کے حقوق سے وابستہ ہر بات کو دشمن کی بات سمجھ کر صرف مزہ لیتے ہیں ۔اور ٹن ٹن کی آواز سے خوش ہورہے ہوتے ہیں. پندرہ بیس سال پہلے میرے محلے کے ایک صاحب کی چھ لڑکیوں میں سے چار یکے بہ دیگرے لڑکا بن گئیں ۔میں ہکا بکا رہ گیا ۔کہ لڑکی کو لڑکا بنانے کیلئے مطلوبہ سپئر پارٹس کیا ٹویوٹا والے بنارہے ہیں؟
جس ڈاکٹر نے تشخیص کی تھی وہ ملا   تو اس سے پہلا سوال یہی کیا؟
کہنے لگا “یار لڑکی کو لڑکا کوئی نہیں بنا سکتا ۔بس تھوڑا جسمانی ہیر پھیر ہے، جو بچے کی پیدائش پہ ہی سمجھ آجاتا ہے ۔ماں باپ اس ابنارملٹی پہ سمجھوتہ کرلیتے ہیں ۔مگر فطرت سمجھوتہ نہیں کرتی ۔
لہذا بلوغت یا اس سے پہلے ہی مسائل شروع ہوجاتے ۔۔جو ایک معمولی آپریشن سے حل ہوجاتے ہیں ۔”
لو اتنی سی بات تھی ۔معمولی ابنارملٹی ،تو کیوں نہ اس کتاب کو پڑھ کر چیک کرلیا جائے کہ کہیں ہم معمولی سے ابنارمل تو نہیں ہیں ؟
سوچ اور سمجھ کا معمولی سا آپریشن ہے ۔۔ہم مکمل مرد بن سکتے ہیں ۔۔
یقین کریں، ٹن ٹن کی آواز آئے گی !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply