خوش حال ریلوے کے بدحال ضامن۔۔محمد سعید

خوش حال ریلوے کے بدحال ضامن۔۔محمد سعید/ایسا نہیں کہ ہم لکھنا بھول گئے تھے بلکہ ہوا کچھ یوں کہ ستمبر کے وسط میں ہم نے ایک پوسٹ کی جس میں کمرشل پوائنٹ آف ویو سے مستقبل میں آنے والے اچھے وقت کی نشاندھی کی ، ہماری اس پیش گوئی کا بعض احباب نے خوب مذاق اڑایا ،لیکن وہ کیا ہے کہ تین ماہ کے مختصر ترین عرصہ میں آسمان سے باتیں کرتے ہوئے حقیقی ارننگ فگرز نے اب تک بہت سے ناقدین کو خاموش رہنے پہ مجبور کردیا ہے۔ اگرچہ کام چور،کرپٹ اور مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی نا کسی طرح جان چھوٹ جائے لیکن قدرت کی حمایت و نصرت نے پانسا پلٹ کر رکھ دیا۔

جس وقت چارج لیا جا رہا تھا،اس وقت پسنجر ارننگ فگرز چالیس پینتالیس ملین کے آس پاس ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھر رہے تھے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ سو ملین سے زائد ارننگ فگرز شائد اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ جب تک متعلقہ سیٹ پر پرفیکٹ بندہ نہیں لگائیں گے تب تک آپ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔

ہو سکتا ہے آپ میری رائے سے اختلاف کریں لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس وقت جزوی طور پر کمرشل ڈیپارٹمنٹ جاوید اشرف قاضی کی طرز پر چل رہا ہے۔

جن لوگوں نے جاوید اشرف قاضی کا ویجیلنس ٹیموں کا دور دیکھ رکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ریلوے کی ڈھائی سو سے زائد ایکسپریس اور پسنجر ٹرینز کے بہت بڑے نیٹ ورک کو کرپٹ مافیا جس بُری طرح چمٹا ہوا تھا اس کا تدارک بھی اسی بےرحمی کے ساتھ کیاگیا،لیکن بدقسمتی سے پھر جمہوریت نامی وائرس کی زد میں آ کر وہی کرپٹ لوگ جمہوری راستے سے واپس آتے گئے۔
کسی بھی ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کا بیڑہ غرق ہونے میں محض چند ماہ نہیں لگتے بلکہ اس کے پیچھے دس پندرہ سال کی ناقص ترین پالیسیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔

گزشتہ دس پندرہ سال تواتر سے ایسی پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل دی گئی جس کی بناء پر کمرشل ڈیپارٹمنٹ کا موجودہ سیٹ اپ ،اپ سیٹ کی صورت میں سب کے سامنے آچکا ہے۔

پانچ چھ سال پہلے جب کاغذوں میں ریلوے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن تھی تو ہم نے اسی سیٹ پر بیٹھے ہوئے صاحب سے ملنے کی درخواست کی، بڑے صاحب نے روائتی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف انکار کر دیا،پھر ہم نے ان کے میڈیا کے دوست کے توسط سے اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔

اپنے دوست کو کہنے لگے یہ کس فضول قسم کی کیٹیگری کا بکھیڑا میرے سامنے لے آئے ہو،یہ تو اتنے کرپٹ ہیں کہ میرا بس چلے تو اس کیٹیگری کو سرے سے ختم کر دوں۔
ان کے دوست نے جواباً کہا کہ آپ اس کیٹیگری کے ہیڈ ہیں جب سے آپ نے چارج لیا ہے تب سے اب تک ظاہر ہے آپ کے پاس سینکڑوں ہزاروں کرپشن کی شکایات آئی ہوں گی تو ان شکایات کے ازالے کے لئے آپ نے کونسی انظباطی کارروائی کی۔

دوسری اہم بات جب آپ کو پتہ ہے کہ کرپشن کہاں اور کیسے ہو رہی ہے تو پھر آپ اسے روکنے میں بےبس کیوں ہے؟
پھر انکے دوست نے ہمارا اصل پیغام ان تک پہنچانے کی کوشش کی کہ آپ جس ڈیپارٹمنٹ کو بطور ہیڈ لیڈ کر رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ لفظی بیان بازی کی بجائے عملی اقدامات ایسے کریں کہ کوئی کرپشن کا تصور ہی نا کرے۔

قصہ مختصر بڑے صاحب نے ہر وہ کام کیا جس سے ڈیپارٹمنٹ مجموعی طور پر تنزلی کا شکار ہو اور بدقسمتی یہ رہی کہ بعد میں آنے والوں نے بھی اس میں اپنی بساط بھر حصہ ڈالا اور ٹرانسفر ہو کر چلتے بنے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے سرسید ایکسپریس کو پرائیویٹ پارٹی کے حوالے کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی صاحب نے بڑے واضح الفاظ میں بیان دیا تھا کہ ہم مجبوراً ٹرینز کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں کیونکہ ریلوے کے افسران کے پاس وہ اہلیت ہی نہیں ہے جو اس نظام کو چلا سکے۔

جناب اعظم خان سواتی صاحب آپ کے فقط ایک صحیح فیصلے نے آپ کے بیانئے کو یکسر مسترد کردیا ۔
جناب یا تو آپ اس وقت غلط تھے یا پھر اب آپ غلط ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ سواتی صاحب یہی وہ ڈیپارٹمنٹ ہے نا جس پہ مافیا کا قبضہ تھا،کرپٹ ملازمین ارننگ کی راہ میں رکاوٹ تھے،تو جناب

اب ریلوے کے افسروں میں سے آپ ہی نے یہ انتخاب کیا ہے جس نے دن رات ایک کر کے ڈھائی ماہ کے مختصر ترین عرصہ میں یہ ثابت کرکے دکھا دیا کہ ریلوے کے افسران کے پاس وہ اہلیت ہی نہیں کہ وہ اس کو چلا سکیں۔نتائج آپ کے سامنے ہیں پرانے فرسودہ سیٹ اپ سے دوگنا سے زیادہ ارننگ فگرز وہ بھی مصدقہ۔
جناب عالی آپ نے اب تک کمرشل ڈیپارٹمنٹ کو سمجھنے والا بندہ لگایا ہی نہیں تھا۔
یہ آپ ہی کا لگایا ہوا افسر ہے جو اپنی ڈویژن میں آٹھ سے دس گھنٹے لیٹ آنے والی ٹرین کو رائٹ ٹائم واپس چلانے کے لئے مسلسل بھاگ دوڑ کرتا ہوا فیلڈ میں نظر آتا ہے۔
تو پھر اب ایسے کونسے خطرات لاحق ہو گئے کہ آپ آزمودہ اور کامیاب افسر کو چھوڑ کر دوبارہ نئی تعیناتی کر رہے ہیں جبکہ آپ کے ارننگ فگرز اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ یہ کارکردگی ابھی تسلسل اور مزید وقت کی متقاضی ہے۔
تین ماہ کے بعد نئے سی سی ایم کی تعیناتی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔

سواتی صاحب آپ سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ ریلوے میں رائج کی گئیں ماضی کی ناقص ترین پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے کر جدید دور کے بدلتے ہوئے رجحانات کے تحت حکمت عملی ترتیب دیجئے،ریلوے کے موجودہ کمرشل سیٹ اپ میں اب بھی اتنا پوٹینشل ہے کہ ہمیں پرائیویٹ پارٹنرشپ یا آؤٹ سورسنگ کی ضرورت ہی نا پڑے۔

آخر میں سواتی صاحب سے آپ احباب کے توسط سے اتنا پوچھنے کی جسارت چاہتا ہوں کہ ریلوے کی ایڈوائزری کنسلٹنٹ پراکس کے پاس وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہوگی کہ وہ ریلوے کی آمدن میں اضافے کا سبب بنے گی جب کہ پراکس میں بھی کم و بیش وہی افسران تعینات ہیں جو ریلوے سے وابستہ رہ چکے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

عالی جاہ جو ریلوے میں رہتے ہوئے ریلوے کو خوشحال نا کر سکے وہ پراکس میں جا کر کس طرح ریلوے کو خوشحال بنا پائیں گے ؟
کہیں ایسا تو نہیں ریلوے کی خوشحالی کے دعوے دار ہی اس کی بدحالی کے ضامن بنے ہوئے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply