کتھا چار جنموں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ستیہ پال آنند۔۔۔قسط47

ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کے بارے میں کئی مضامین لکھ چکا ہوں
اور انہیں یہاں دہرانا مناسب نہیں ہے، تو بھی کوشش کرتا ہوں کہ ان میں سے کچھ مواد اس کتھا میں بھی شامل ہو جائے، کہ اس کے بغیر یہ کچھ ادھوری لگے گی۔ چونکہ میری اس خود نوشت سوانح کا بنیادی مقصد ہی یہ بتانا ہے کہ میں نے کس کس سے کیا کیا کچھ سیکھا، یا ہندی میں کہیں تو ایسے کہیں گے، میں کیا کچھ گرہن گیا، توکن لوگوں کےطفیل سے؟ کیا یہ عجیب نہیں لگے گا کہ ڈاکٹر وزیر آغا پر بات کو مختصر کر دیا جائے؟دنیا کی چار دِشائوں سے، ایک درجن سے بھی زیادہ زبانوں کے اہل قلم سے میں نے ایک لالچی بھکشو کی طرح گیان کی بھکشا پائی ہے تو اس مرّبی کا ذکر ادھورا چھوڑ دوں جس کی بھکشا میرے کمنڈل میں اب تک پڑی ہوئی ہے؟ وہ تو خود اتنے اُدار ہردے یعنی فراخدل واقع ہوئے تھے کہ کہا کرتے تھے، میں ستیہ پال آنند سے بات چیت میں بہت کچھ سیکھتا ہوں، لیکن مجھ ہیچمداں کو علم ہے، کہ میں کتنا گیانی یا اگیانی ہوں۔ گیان چکھشو (گیان کی آنکھ) ضرور کھلی رکھتا ہوں کہ جو کچھ دیکھوں اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لوں۔ یہ سلسلہ منشی تلوک چند محروم سے شروع ہوا، جب میں چودہ پندرہ برس کا تھا اور آج ستاسی برس کی عمر تک جاری ہے۔

پیری دیکھتے دیکھتے ہی آپ پر مسلّط ہوجاتی ہے۔ کہیں یہ مقولہ پڑھا تھا، لیکن اس پر غور نہیں کیا تھا۔ پچھتّر برس کے قریب پہنچتے پہنچتے آٹھ دس گھنٹے روزانہ کام کرنا، یعنی یونورسٹی پہنچنے کے لیے پہلے کچھ میل ڈرائیو کر کے بس ٹرمینس تک پہنچنا، بس پکڑ کر پندرہ میل دور میٹرو اسٹیشن تک پہنچنا، وہاں سے ایک گاڑی پکڑنا اور پھر سنٹرل اسٹیشن پر جا کر گاڑی بدل کر یونیورسٹی پہنچنا ، صرف اس تگ و دو میں ہی ڈیڑھ دو گھنٹے صرف ہو جاتے تھے، یہ ایک طرف کا سفر تھا، واپسی پر پھر وہی طویل رستہ۔ تھکا ہارا گھر تک پہنچتا تو بیوی کی بیماری کی وجہ سے درجنوں مسئلے میرے انتظار میں کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہوتے۔ میں نے ایک دن محسوس کیا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں آباد ہو جانے سے ہی سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں ، ایک بار میرا حال دیکھ لیں تو کان پکڑ لیں۔ ماہانہ اخرجات کے لیے تو سوشل سیکیورٹی کی پنشن بھی تھی، جو در اصل وہی رقم ہوتی ہے جو یہاں کے شہری کم از کم چالیس سہ ماہی وقفوں میں اپنی آمدنی سے کٹوا چکے ہوتے ہیں، حکومت پینسٹھ برس سے زیادہ عمر کے شہریوں کو وہی رقم بالاقساط واپس کرتی ہے، لیکن میں نے سوچا کہ اگرمیں یونیورسٹی کی ملازمت ترک کر کے ایک بار کرسی نشین ہو گیا تو ۔۔۔۔ ہو گیا!

اپنی ذہنی پریشانی کا ذکر فون پر ڈاکٹر وزیر آغا سے کیا۔ ہنس پڑے، بولے، پھرآپ کی حالت پنجاب کے گائوں کے اس بڑے بزرگ کی طرح ہو جائے گی جسے بہوئیں، بیٹے، پوتے پوتیاں، خود باہر جاتے ہوئے، گھر کی ڈیوڑھی میں چارپائی پر بٹھا کر ساتھ ایک لاٹھی رکھ دیتی ہیں، اور تاکید کر جاتی ہیں، بابا، آوارہ کتوں کو اندر مت آنے دینا۔ بیٹھے بیٹھے سو مت جانا!
یہی رائے ڈاکٹر عبداللہ نے بھی دی۔ انہوں نے تو صاف الفاظ میں کہا، پھر آپ مر جائیں گے۔ یعنی اگر دس برسوں میں مرنا ہے، تو پانچ میں ہی مر جائیں گے۔ یونیورسٹی میں پڑھانا مت چھوڑئیے۔
اس لیے میں ہفتے میں چار دن یونیورسٹی اور باقی کے تین دن لکھنے پڑھنے میں گذارنے لگا۔ نظموں کی آمد کی رفتار کی تیزی اس قدر تھی کی کئی بار میں میٹرو کے ایک گھنٹے کے سفر میں ایک نظم کہہ لیتا اور اسے نوٹ بک میں اپنی پہلی نا تراشیدہ حالت میں لکھ بھی لیتا۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے ایک نوجوان دوست رفیق سیندیلوی نے جب فرمائش کی کہ میں ان کے ایک شعری مجموعے ـغار میں بیٹھا شخص کا دیباچہ لکھوں اور اس کے لیے انہوں نے چالیس کے لگ بھگ نظموں کا ایک پلندہ ڈاک سے بھیج بھی دیا، تو میں نے ایک ہفتے کے دوران میں ہی میٹرو ٹرین میں یونیورسٹی آتے جاتے یہ مضمون لکھ لیا۔ اسی طرح ساختیات پر ایک ضخیم کتاب پر تفصیل سے دیباچہ لکھنے میں بھی مجھے ایک ہفتہ لگا۔ یہ کتاب ڈاکٹر احمد سہیل کی تھی، جن کی ڈاکٹریٹ کی رہنمائی کچھ برس پہلے میں نے کی تھی۔ جب ہندوستان یا پاکستان سے دوستوں اور عزیزوں کے نئے شعری مجموعے تبصرے کے لیے آتے (اور ہر ماہ دو تین کتابیں آ جاتی تھیں)، تو میں کبھی انکار نہ کرتا، اور حتیٰ الوسع فلیپ پر چھپنے کے لیے اپنی رائے یا تبصرہ فوری طور پر لکھ کر بھیج دیتا۔ پیش لفظ کے لیے آنے والی ایک کتاب شبنم رومانی صاحب کی نیا ہمالہ بھی تھی، جس کے لیے اپنے خط میں محترم احمد ندیم قاسمی صاحب (مرحوم) نے لکھا تھا ،میں نہیں سمجھتا کہ اس کتاب کا آپ سے بہتر کوئی دانشور سیر حاصل دیباچہ لکھ سکتا ہے، اس لیے یہ کام اب آپ ہی کریں گے۔ قاسمی صاحب کے کہنے کو میں ایک حکم کی طرح سمجھتا تھا، اس لیے دیگر سب کام ملتوی کر کے میٹرو پر اپنے یونیورسٹی آنے جانے کے پھیروں کے دوران میں نے یہ دیباچہ لکھ لیا

اسی طرح جب کراچی سے معراج جامیؔ صاحب نے اپنے اداریوں پر مبنی کتاب کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی تو میں نے مقالات افتتاحیہ لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ لندن سے ماہنامہ پروازکے ایڈیٹر نے بھی اسی قسم کی فرمائش مجھ سے کی، ان کے بھیجے ہوئے اداریوں پر مبنی مسودہ دیکھ کر دیباچہ لکھا۔ لاہور سے اردو کی منفرد شاعرہ حمیدہ شاہیں صاحب نے ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے حوالے سے خط لکھ کر یہی فرمائش کی ، ان کی منظومات پڑھنے کے بعد مجھے خوشی بھی ہوئی کہ دیباچہ لکھنے کے لیے ہی سہی، لیکن ایک اچھی شاعرہ کی شاعری سے متعارف ہونے کا موقع ملا ہے۔ راولپنڈی سے عزیز دوست علی محمد فرشی نے جب اپنی ایک طویل تر نظم پر مبنی کتاب بعنوان انیقہ مجھے بھیجی تو پڑھنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اس پر تجزیاتی مطالعہ یونہی میٹرو ٹرین پر آتے جاتے اوقات میں نہیں لکھا جائے گا۔ جم کر، بیٹھ کر، کچھ دیگر حوالہ جاتی قسم کی کتابیں دائیں بائیں رکھ کر، تین چار طویل نشستوں میں تحریر کیا جا سکے گا۔ ایسا ہی ہوا، بیس سے بھی زیادہ صفحات کا یہ تجزیاتی مضمون لکھ کر مجھے خود محسوس ہوا کہ میں نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔ استنبول یونیورسٹی (ترکی) میں شعبۂ اردو کے سر براہ اور اپنے عزیز خلیل طوق اَر کی کتاب کا ، جو ترکی کے عظیم شعرا کے حالات اور ان کی چیدہ نظموں پر مشتمل ہے، انگریزی میں دیباچہ لکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ واشنگٹن میں ہی اپنے عزیز دوست ڈاکٹر عبداللہ (جن سے شاید میرا کسی گذشتہ جنم کا کوئی رشتہ ہے، ) کو میں نے بہت مشکل سے راضی کیا کہ وہ اپنی نظموں کو کتابی صورت میں چھپوائیں۔ اس کتاب کا دیباچہ لکھ کر بھی بہت مسرت ہوئی۔ انڈیا میں شائع ہوئی احباب کی ان کتابوںکی فہرست بہت طویل ہے،جن کے پیش لفظ میں نے لکھے۔ سر فہرست اپنے عزیز دوست اور مربی ہیرا نند سوز کے دو افسانوی مجموعے ہیں لیکن اس کے بعد دس بارہ کتابوں کی فہرست ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ اس کام میں مجھے روحانی مسرت ہوئی ہے تو کلیتاً صحیح نہ ہو گا۔ اور اگر یہ کہوں کہ یہ کام کرتے ہوئے مجھے جسمانی اور ذہنی تکلیف ہوئی ہے، تو کلیتاً غلط بھی نہیں ہو گا۔ لیکن پھر خود کو سمجھاتا ہوں، کہ اگر میرے دو تین گھنٹوں کی قلم گھسائی سے کسی فرد ِ دیگر کو خوشی ملتی ہے، تو اس میں میرا کیا حرج ہے؟

انڈیا سے بھی اور پاکستان سے بھی کچھ احباب نے فون پر بتایا کہ اب رواجاً یہ ایک طے شدہ امر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی جونیر ادیب اپنی زیر طبع کتاب کے لیے دیباچہ یا فلیب پر آویزاں کرنے کے لیے ایک مختصر رائٹ اَپ لکھنے کی درخواست کرے تو آپ بلا تامل ، بغیر کسی حیل و حجت کے اس سے معاوضہ کی رقم وصول کر سکتے ہیں۔ مجھے جیسے ابکائی سی آئی۔ کہاں تو ایک عقیدت مند اپنا کشکول لیے ہوئے آپ کے سامنے عرض گذار ہے اور کہاں ایک تاجر کی طرح آپ اس سے اپنے قلم کی کمائی کے طور پر اپنا محنتانہ طلب کر رہے ہیں۔میرے افسانوں کے مجموعوں پر کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس ، وغیرہ سینیئر دوستوں کی آرا چھپی ہوئی ہیں۔ میرے نظموں کے مجموعوں کے پیش لفظ، اختر الایمان، وزیر آغا، شکیل الرحمٰن اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھے ہیں ، کیا ان عالی مقام قلمکاروں میں سے کوئی یہ ذلیل کام کر سکتا ہے، میں تو نہیں مانتا ! آج عیسوی سن اُنیس سو اٹھارہ 1918 ؑ کی پندرہ تاریخ ہے جب میں اس نوشتہ پر کام کر رہا ہوں۔ میرے اندازے کے مطابق میں نے آج تک ایک سو سے زیادہ کتابوں کے پیش لفظ ، مختصر آراٗ فلیب کے لیے یا ریویو لکھے ہیں، لیکن قسم ہے جو میں نے ایک روپیہ بھی اس کام کے لیے کسی سے وصول کیا ہو۔

اور اگر یہ کہوں کہ یہ Hack work تھا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی صاحب کے جریدے سہ ماہی فنون میں مشمولہ میرے مضمون سنسکرت شاعری میں ـرسـ Rasa کی اہمیت کے پیچھے خط و کتابت کی ایک طویل داستان ہے۔ مرحوم و مغفور احمد ندیم قاسمی سے بارہا میں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ اردو نے فارسی سے جو اثرات قبول کیے ہیں ، ان پر انگشت نمائی نہ بھی کریں تو کیا یہ درست نہیں ہے کہ سنسکرت یا ہندوستان کی دیگر ہمعصرعلاقائی زبانوں کو اردو نے خود سے ہمیشہ ایک ہاتھ کی دوری پر رکھا ہے اور اس طرح جو کچھ اس نے علحٰدگی کے اس وطیرے سے کیا کھویا یا پایا ہے۔ اردو کے تنقید نگار اگر ادبی جمالیات کی ہندوی تھیوریوں سے آگاہ ہوتے تو وہ اس میدان کو بالکل ٖغیر آباد نہ چھوڑتے۔ کچھ تو کاشت کرتے۔ اب تو ما سوا عارض، زلف، رخسار،لب ِ لعلیں اور چشم ِآہو کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ درد کے تلذذ کی کیفییت بھی بیان ہوتے ہوتے ادبی تحت الثرا کی اس سطح پر پہنچ کی ہے، جہاںمحبوب کی قصابیت کا منظر نامہ پیش ہوتا ہے۔ تسلیم نہیں کرتے تھے محترم احمد ندیم قاسمی یہ بات، لیکن جب میں نے سنسکرت کاویہ شاستر (بوطیقا) میں رس کی تھیوری کی اہمیت کا ذکر کیا تو انہوں نے بطور چیلینج مجھے فنون کے لیے اس موضوع پر لکھنے کی دعوت دی ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا، کہ بات تب بنے گی جب میں ایک گنجلک، لیکن کئی صدیوں سے افکار و خیالات کی پرتوں سے بوجھل ہو چکی تھیوری کواس طرح سے بیان کروں جیسے کسی مبتدی کے سامنے بیٹھ کر ارسطو پڑھا رہا ہوں ۔

میں نے ان کی بات کو پلے باندھ لیا اور واقعی اپنا مقالہ اس طرح شروع کیا جیسے میں اپنے طالبعلموں کو کمرہ ٔ جماعت میں پڑھا رہا ہوں۔پہلے تو سنسکرت میں شاعری کے قبیلوں (سمپردائے) کو گنوایا کہ یہ پانچ قبیلے انسانی قبیلوں کی طرح ہی ہیں، یعنی آپس میں دوستی یا دشمنی رکھ سکتے ہیں۔ ان پانچ قبیلوں (النکار سمپردائے، ریتی سمپردائے، دھونی سمپردائے، وِکروکتی سمپردائے، رس سمپردائے ) پر ایک ایک پیراگراف لکھا ور ہر ایک کی خصوصیات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ قاری یا سامع پر خالص جمالیاتی کیفیت کے طاری ہونے کے پیچھے کیا کچھ محرکات پوشیدہ ہیں، اس کا جواب سنسکرت کاویہ شاستریوں نے صرف ایک لفظ میں دیا ہے، رس۔ پھر تفصیل سے دس بنیادی رسوں کی اقسام اور ان کے اجزائے ترکیبی گنوائے ۔ مثالیں سب اردو سے اخذ کیں۔یہ درست ہے کہ شاعری میں حسن نامی جزو تلاش کرنے میں حکما کو بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ افلاطون، شوپن ہاور،سانتیانا ۔ سبھی نے اس اکھاڑے میں زور آزمائی کی ہے۔ لیکن اس کی وضاحت اور توجیع ان کے بس کی بات دکھائی نہیں دی۔

حسن آفرینی کو ماپنے کا پیمانہ ادب کی فنی تنقید کی قلمرو کا باشندہ نہیں ہے، اس کی اپنی ایک الگ ریاست ہے، جس کی فصیل کے شاہدرے کو رس کی کلید سے کھولا جا سکتا ہے۔۔۔۔بہر حال میں نے مضمون لکھ دیااور وہ فنون میں شامل اشاعت بھی ہو گیا۔ میرا خیال تھا، کہ اردو کے ادیب، ناقد اور خصوصی طور پر ـفنون کے قارئین اس بحث میں حصہ لیں گے لیکن سوائے چند ایک خطوط کے جن میں مضمون کی تعریف و توصیف تھی، کسی نے اس مضمون کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی

Advertisements
julia rana solicitors

۔دو امور میرے سامنے آئے ، ایک تو یہ کہ اردو کا شاعر اور نقاد جمالیات کے گورکھ دھندے میں پڑنے کا قائل ہی نہیں، اسے جو فارسی بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے، اسی پر قانع ہے۔ دوسرا یہ کہ
ہندوستان میں تو ان طلبہ کے لیے جو بیک وقت ہندی اور اردو کی درسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ معرکہ سر کرنا شاید آسان ہو، لیکن پاکستان میں نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply