15 اپریل کے نام/میاں آصف افتخار الدین شاہ

وہ وفا کی شمع بجھی نہیں، پہ جو شوق تھا وہ تو مر گیا
وہ نہ کٹتا تھا جو ترے فراق میں، وقت وہ بھی گزر گیا

تو مِلا نہیں جو کسی بھی خواب میں، تج دیا ترے خواب کو
وہ خیال ہی کا فتور تھا، سو خیال ہی وہ سدھر گیا

ترے خواب تھے وہ حریر کے، مرے راستوں میں تھیں کلفتیں
نہیں فکر اب تو کہاں رہا، نہ تجھے خبر میں کدھر گیا

وہ کیا جو تھا ترے نام، سال مرے، وفا مری، دل مرا
جو کہا تُو نے یہ مذاق ہے، مرا سب وہاں ہی بکھر گیا

تری یاد ہی نے کہا مجھے، ترے راستے جو ملے مجھے
ابھی اور کچھ تُو بھٹک ذرا، تجھے ڈھونڈنے میں جدھر گیا

سو قدم قدم وہ ملی مجھے، تری راہ میں جو شکستگی
اسی کربِ ہجر کے طور میں مرا کارِ عشق نکھر گیا

Advertisements
julia rana solicitors london

مرا فقر تھا تجھے ناپسند، مرا وہ رستہ، مرا کرم
یہ تو شاہ ؔ تھا کہ ہٹا نہیں، نہ ادھر گیا، نہ اُدھر گیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply