معافی ؟۔۔فرزانہ افضل

لوگ کہتے ہیں کہ معاف کر دینا چاہیے۔
ان لوگوں کو معاف کرنے کی گنجائش ہوتی ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرلیں اور اپنی زیادتی کو مان لیں مگر کچھ لوگ اس قدر ہٹ دھرم ہوتے ہیں وہ نہ تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں ، نہ ہی زیادتی پر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اپنے اعمال کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتے بلکہ الٹا اس کی سب ذمہ داری دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں۔ الزام تراشی اور غلط بیانی میں ماہر ہوتے ہیں۔ بار بار سمجھانے پر بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتے۔ آپ کو بار بار دوسروں سے ڈسے جانے کا شوق ہے اور تکلیف اٹھانے میں سکون اور راحت ہے ، تو معاف کرتے جائیے ۔

یہاں یہ واضح کر دوں کہ معاف نہ کرنے کا مقصد کسی سے بدلہ لینا ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض اوقات زندگی میں ایسے موڑ آ جاتے ہیں آپ دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ زندگی ایک بار ملتی ہے دو بار نہیں اور یہ خدا کی دی ہوئی نعمت ہے۔ اس کو عزت اور عزت نفس کے ساتھ گزار ئیے ، جھوٹی انا اور خوامخوہ کی اکڑ کے ساتھ نہیں۔ مزید یہ کہ غلطی پر معافی ہے، زیادتی پر نہیں۔

زیادتی پر معافی انسانی اقدار کے منافی ہے ،زیادتی کرنے والوں کیلئے بھول جا، آگ لگا ، نام نہ لے یاد نہ کر۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دوست کی کہی ہوئی بات بھی یاد آ گئی ہے کہ جب ایک کپ تڑخ جاتا ہے تو اسے کپ نہیں کہتے، ٹوٹا ہوا کپ کہتے ہیں۔ میرے مطابق اسی طرح جب کسی رشتے میں دراڑ آجائے تو اسے رشتہ نہیں ، ٹوٹا ہوا رشتہ کہا جاتا ہے۔ ذہنی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ تکلیف دہ لوگوں اور دکھ دینے والے رشتوں سے قطع تعلقی کرلی جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply