شمس سبزواری کی سوانح بارے /عامر حسینی

شاکر حسین شاکر نے ملتان میں آسودہ خاک “پیر شاہ شمس سبزواری” کے بارے میں ایک کتاب مدون کی ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ انھوں نے اب تک “شمس تبریز”، “شمس العراقی” اور “شمس سبزواری” پر لکھی جانے والی کُتب اور مضامین کا ایک جامع تذکرہ اس کتاب میں جمع کرکے قاری کو یہ باور کرایا ہے کہ کیسے سب کے سب مورخین اور ماہرین نے ان تینوں شخصیات سے منسلک واقعات کو گڈمڈ کردیا اور یہ کام انھوں نے بھی کیا جو ان تین کو الگ الگ شخصیات بھی تسلیم کرتے تھے۔
اگرچہ شاکر صاحب شمس سبزواری کی دوسری دو شخصیات کے ساتھ مشابہت بارے اپنے سے پہلے کے مصنفوں کی ڈگماہٹ کی تفصیل بتانے میں اتنا کلام کو پھیلا گئے کہ خود انھوں نے شمس سبزواری کی سوانح بارے جو اخذ کیا اُسے وہ ایک جگہ رکھ کر الگ سے تفصیل سے بیان کرنے سے چوک گئے لیکن یہ کتاب آنے والے محققین کے لیے بہت سی دشواریوں کو آسان بنا گئی ہے۔
ملتان میں اسماعیلی مذھب کی آمد اور اشاعت کے بارے میں لکھتے ہوئے صرف سُنی ماہرین تاریخ ہی نہیں بلکہ شیعہ اثنا عشری ماہرین تاریخ بھی معروضیت، حقائق کو جذباتیت اور اُن کی کردار کشی پر مبنی اصطلاحات کے استعمال سے دامن نہیں بچا پاتے۔
خاص طور پر اسماعیلی شاخ قرامطہ کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک تو محمود غزنوی کے درباری نظریہ تاریخ سے ابھرنے والے تاثر سے چھٹکارا مشکل نظر آتا ہے اور دوسرا عباسی دور کے حاکم و غالب نظریات اور تاثرات سے چھٹکارا پانا مشکل لگتا ہے۔ اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماہرین تاریخ کو شمس سبزواری کا قرامطی ہونا ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہوتا اور وہ اپنے تئیں “معتدل اسماعیلی شیعی پیر شمس” کی تخلیق کرتے نظر آتے ہیں۔
پیر شمس سبزواری نے گجرات میں احمد آباد سے 66 میل دور آنول آباد گاؤں کے ایک مندر میں دسہرہ کے تہوار میں کئی راتوں تک اسماعیلی مذھب کی تعلیمات پر مبنی “گربیاں” سُناکر گاؤں کے لوگوں کو اپنا مرید بنالیا تھا۔ یہ آنول آباد ملتان کے ایک معروف ہندؤ آنول چند کے نام پر احمد آباد سے 66 کلومیٹر دور ایک گاؤں کا کیسے آباد ہوا اور پیر شمس اُس گاؤں تک کیسے پہنچا؟ کیا آنول چند ملتانی بھی اُن ملتانی باشندوں میں سے ایک تھا جو اسماعیلی مذھب سے جڑے تھے اور ابھی قرامطی تصور روحانیت کی پہلی منزل پر تھے؟
شاکر صاحب کی کتاب نے بہت سارے سوالات جو پیر شمس سبزواری کی ذات اور اُن کی زندگی سے جڑے ہیں جن میں سے ملتان کو الگ نہیں کیا جاسکتا پھر دوبارہ سے ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ اس کتاب میں
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
کا ترجمہ بار بار “مولائے روم ہرگز مولوی نہ ہوتے” کیا گیا ہے جبکہ اس ترجمے سے مولوی مفتی جلال الدین رومی کا مولائے روم ہوجانے کا معنی غتربود ہوجاتا ہے۔ مولوی تو وہ شمس تبریز سے ملاقات ہونے سے پہلے ہی تھے اور اُن جیسے مولوی بھی چیدہ چیدہ تھے مگر وہ مولائے روم ہوئے تو شمس کی صحبت میں قیل و قال سے زوق و حال کی منزل تک پہنچنے پر۔
شاکر بھائی نے سخت محنت اور لگن سے یہ کتاب مرتب کی ہے لیکن امید ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن اس کتاب میں الگ الگ وقت میں لکھے گئے مضامین کو باریک بینی سے کانٹ چھانٹ کیے بغیر لانے کا جو تاثر ہے جس میں ایک ہی طرح کی عبارات کی تکرار بار بار ناگوار معلوم ہوتی ہے کے معمولی نقص کو دور کرکے شایع کیا جائے گا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply