تیسرے پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ بقرہ کی بقیہ آیات (253 سے 286 تک) ہیں۔ ابتدا پارے میں رسل اللہ کا ذکر ہے کہ وہ سب اللہ کے منتخب بندے ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے۔
اس کے بعد قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت (آیت الکرسی) ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنی بعض عظیم الشان صفات کا تذکرہ کیا، اس آیت میں اللہ تعالی نے 26 کے قریب اپنے نام اور صفات بیان کی ہیں۔ پھر یہ بتایا کہ ہدایت و گمراہی واضح ہوچکی ہیں لہذا دین میں زور زبردستی کی ضرورت نہیں جو چاہے حق کا راستہ اختیار کرکے فلاح پا جائے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ تعالی ایمان والوں کے دوست ہیں ان کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ کفار کے شیطان دوست ان کو اندھیروں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے بعد تین واقعات کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر خوب قادر ہیں۔
اس کے بعد کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ پر انتہائی مفصل کلام کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ جو اللہ کی راہ میں خلوص نیت سے خرچ کرتے ہیں، اس کے بعد کوئی احسان نہیں جتاتے ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ اس سے بھی منع کیا گیا کہ جب اللہ کی راہ میں دو تو بالکل ردی چئز نا دو۔ اس ضمن میں کچھ مثالیں بھیں ذکر کی گئیں جن سے خلوص نیت سے انفاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نیز چھپا کر صدقہ دینا علانیہ دینے سے بہتر ہے۔ انسان جو بھی اللہ کے لیے خرچ کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے، اللہ کو اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نیتوں کے حال بھی خوب جانتا ہے۔
پھر سود کی حرمت بیان کی گئی اور سود کھانے والوں کے خلاف اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ کردیا گیا۔اس سے سود کی قباحت پوری طرح روشن ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد آپس کے لین دین کے کچھ احکام ذکر کیے گئے۔ پھر اس سورہ کا اختتام دو عظیم آیات پر ہوا جن میں پہلے رسول اور مومنین کی تعریف کی گئی کہ یہ اللہ، فرشتوں، کتب، اور رسل پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ کے احکام پر سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ایک جامع دعا سکھائی گئی جس پر سورہ بقرہ اختتام پذیر ہوئی۔
اس کے بعد سورہ آل عمران شروع ہوتی ہے جو مدنی سورہ ہے۔ اس کی شروع کی 80 کے قریب آیات نجران کے عیسائیوں کے وفد کی آمد کے موقعہ پر نازل ہوئیں۔ یہ آیات زیادہ تر عیسائیوں کے باطل عقائد سے بحث کرتی ہیں۔ شروع سورہ میں قرآن مجید کے حق کے ساتھ نزول کا ذکر کیا گیا، اور یہ بتایا گیا کہ یہ تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ اس کتاب مجید میں کچھ آیات تو واضح ہیں اور وہی کتاب کی اصل ہیں، البتہ اس میں امتحان کی غرض سے کچھ آیات متشابہات بھی آئی ہیں جن کی حقیقت کا علم اللہ کو ہے۔ لیکن جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے اس سے بچنا چاہئیے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ انسانوں کے لیے دنیا میں بہت سی چیزیں خوشنما بنائی گئی ہیں جن سے وہ محبت کرتا ہے، لیکن ان امور کی محبت میں آخرت سے غافل نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ اللہ نے متقین کے لیے جو کچھ تیار کیا ہوا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے۔ متقین وہ ہیں جو صابر، سچے، فرمانبردار، خرچ کرنے والے اور سحری کے اوقات میں استغفار کرنے والے ہیں۔ یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ اللہ کے نزدیک اصل دین اسلام ہی ہے۔
اس کے بعد کفار کی بعض صفات بیان کیں کہ وہ انبیاء کو قتل کرتے ہیں، اللہ کے حکم سے منہ موڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو آگ میں معدودے چند دنوں کے لیے ہی جائیں گے۔ اس لیے اللہ نے واضح کیا آخرت میں کوئی شک نہیں اس دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
نیز یہ بھی بتا دیا کہ عزت و ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے جو چاہتا ہے دیتا ہے۔ یہ حکم بھی دیا گیا کہ مسلمان کفار کو دوست نہ بنائیں، بلکہ جو اللہ سے سچی محبت کرتا ہے اسے چاہئیے کہ رسول اللہ کا اتباع کرے تاکہ اللہ بھی اس سے محبت کرے اور اس کے گناہ بخش دے۔
اس تمھید کے بعد سیدنا عیسی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کا قصہ ہے جو ان کے خاندان آل عمران کی فضیلت کے بیان سے شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی والدہ کا مسجد میں رہنا، ولادت عیسی، سیدنا زکریا کی اولاد کی طلب اور دعا اور سیدنا یحیی کی ان کے ہاں ولادت کا ذکر بھی آیا۔ اس سے یہ بات واضح کی گئی کہ اللہ تعالی بڑھاپے میں اولاد دینے پر بھی قادر ہے، بغیر باپ کے اور بغیر والدین کے پیدا کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے اس کی قدرت سے بعید کچھ بھی نہیں ہے۔
ان قصوں کے درمیان یہ بھی بتایا گیا کہ یہ سب غیب کی خبریں ہیں جو آپ کو بذریعہ وحی دی گئی ہیں، آپ وہاں موجود نہیں تھے۔
سیدنا عیسی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش اور ان کے دیگر معجزات کے بعد ان کے دعوتی کام کا ذکر ہے، کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے، ان کی دعوت کا اکثر لوگوں نے انکار کیا ماسوا چند حواریوں کے، اور کس طرح انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
ان واقعات کے بعد اہل کتاب کو توحید کی دعوت دی گئی اور بتایا گیا کہ یہی اصل دین اور ملت ابراہیمی ہے، ابراہیم علیہ السلام کا یہودیت و نصرانیت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ دین حنیف کے پیروکار تھے اور اسی دین کے پیروکار ان سے نسبت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر اھل کتاب کی کچھ صفات و عادات بیان کی گئیں نیز یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سارے ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ امانت دار بھی ہیں۔
آخر میں یہ بتایا کہ سب انبیاء اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے نہ کہ کسی اور کی عبادت کا، اور ہر نبی سے آخری نبی پر ایمان اور اس کی مدد کا وعدہ لیا گیا تھا۔ اس لیے محمد کا دین اسلام ہی اصل دین ہے، اس کے علاوہ اللہ کی بارگاہ میں کچھ قبول نہیں۔ جو اس سے روگردانی کرے گا اس کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب ہے جس کے بدلے کوئی فدیہ قبول نہیں ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ توبہ کرلی جائے اور ایمان کی راہ اختیار کی جائے، اللہ بہت مہربان اور توبہ قبول کرنے والے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply