ارض فلسطین پر صہیونی تسلط کے 74 سال۔۔آصف جیلانی

۔29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ نے ارض فلسطین کی تقسیم کا صہیونی منصوبہ منظور کیا تھا جس کے بعد فلسطینیوں پر ایک نا ختم ہونے والا عذاب جاری ہے۔ فلسطین دنیا کی واحد بد قسمت مملکت ہے جسے اقوام متحدہ نے تباہ کیا صرف اس لیے کہ اس کی جگہ یہودی ریاست مسلط کی جائے۔
فلسطین کی مملکت کی جگہ یہودی ریاست کے قیام کا منصوبہ صہیونیوں نے 1937 میں پیش کیا تھا اور دوسری عالم گیر جنگ کے دوران برطانوی راج نے اپنی مصلحتوں کے پیش نظر فلسطین میں یورپی یہودیوں کو بسانے کے لیے ان کی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ برطانوی سلطنت نے 1947 میں جب فلسطین کی دو قومی ریاست کی تجویز پیش کی تو صہیونیوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ برطانوی سلطنت نے جس کی نگرانی میں فلسطین 1922 سے تھا، سابق اقوام متحدہ لیگ آف نیشنز کے حوالے کردیا اور اسی کے ساتھ صہیونیوں کو خوش کرنے کے لیے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا حل تجویز کیا۔ اس وقت جب عرب اور یہودی تحریکوںکے درمیان کشیدگی بڑھی تو برطانیہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خاص کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ اہم مقصد اس خاص اجلاس کا یہ تھا کہ فلسطین پر برطانوی راج کی نگرانی کا سیاسی متبادل تلاش کیا جائے تاکہ صہیونیوں کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ جنرل اسمبلی کے اس خاص اجلاس میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔
امریکا پہلے تو فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کا مخالف تھا لیکن 1948 میں امریکی صدر ہیری ٹرومین نے انتخابات میں مفاد کے پیش نظر فلسطین کی تقسیم کی تجویز تسلیم کر لی۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کی منظوری کے نتیجے میں یہودی جن کے پاس صرف سات فی صد علاقہ تھا فلسطین کے 53 فی صد علاقے کے مالک بن گئے اور فلسطینیوں کے حصے میں صرف 48 فی صد علاقہ آیا جو زیادہ تر ریگستان اور بنجر علاقے پر مشتمل تھا۔ یہ 41 لاکھ مسلم اور عیسائی فلسطینیوں کے ساتھ ظلم تھا، ان کے مقابلے میں یورپی یہودیوں کی تعداد صرف چھے لاکھ تیس ہزار تھی۔ یوں برطانیہ نے عربوں کے ساتھ ظلم کے ساتھ فلسطین کی نگرانی ختم کر دی اور فلسطین کو یورپی یہودیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ اقدام اس لحاظ سے غیر قانونی تھا کہ جنرل اسمبلی کو اس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ویسے بھی اقوام متحدہ کو کسی ریاست کو تقسیم کرنے اور کسی ملک کا کوئی علاقہ کسی غیر ملکی کو تفویض کرنے کا اختیار نہیں۔
15 مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونی شدت پسندوں نے فلسطینیوں کی زمینوں اور مکانات پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے مکانات اور زمینوں سے بے دخل کردیا جو آج بھی مختلف عرب ممالک میں پناہ گزینوں کی حالت میں اپنے وطن جانے کے منتظر ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں صہیونی شدت پسندوں نے فلسطین کے 78 فی صد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینیوں کے پاس صرف غرب اردن اور غزہ رہ گیا لیکن 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ 22 فی صد علاقے پر بھی قبضہ کر لیا اور یوں فلسطین مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں نے مل کر فلسطین کو نیست نابودکردیا۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply