۲۳ مارچ کے موقع پر یونیورسٹی میں ایک بہت بارونق محفلِ کا اہتمام کیا گیا۔
ایک شخص کو سٹیج پر بلایا گیا، بتایا گیا وہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کے موقع پہ وہاں موجود تھا۔
اس کی سرخ ہوتی آنکھیں بتا رہی تھی۔ وہ کسِ قرب سے گزر رہا ہے۔
کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر کہہ نہیں پا رہا تھا۔ اپنی بچی کچی سانسوں کو اکٹھا کر کے اتنا ہی کہہ سکا۔
میرے بچوں آج ملک تو اپنا ہو گیا لیکن لوگ پرائے ہو گئے ہیں. اس کی ساتھ ہی بابے نے آخری ہچکی لی اور داعی اجل سے جا ملا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں