ناپائیدار اور جعلی صدمے (2)-یاسر جواد

پہلا حصّہ پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

کیا ہماری آئیڈیالوجی میں یہ بات شامل نہیں کہ ’فطری‘ طور پر عورت اور کردار متعین کر دیے گئے ہیں؟ کہ عورت کا کام گھر سنبھالنا ہے اور بچوں کی تربیت کرنا ہے، اور لڑکی کی تعلیم کا بنیادی مقصد ’اچھی‘ اولاد کی تربیت ہی ہے؟ کہ اچھلنے کودنے والی یا ’’آگے سے بولنے والی لڑکی‘‘ کا کردار مشکوک ہوتا ہے؟

کیا یہ محاورہ عام نہیں کہ ’’ہنسی تے پھنسی؟‘‘ کیا ہماری آئیڈیالوجی کے مطابق کسی بھی جنسی معاشقے یا سکینڈل میں خود لڑکی کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے، یا کسی نہ کسی طرح اُس کا قصور بھی ہوتا ہے؟

کیا اچھے مردوں کو جنت میں اچھی اور نیک اور حسین لڑکیاں نہیں ملیں گی، اور یہ دنیاوی میلی کچیلی اور ناپاک لڑکیاں محض ڈسپوزیبل ’مال‘ نہیں سمجھی جاتیں؟

اگر یہ سب یا اِن میں سے متعدد باتیں ہماری آئیڈیالوجی کا حصہ ہیں اور مقدس چھتری بھی کہیں نہ کہیں اِنھیں چھاؤں دیتی ہے تو پھر شوروغوغا کیوں؟ لڑکیاں 5500 ہیں یا تصویریں 5500، اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

طالبات تصویروں اور کلپس میں خوش نظر آ رہی ہیں تو کیا ہوا؟ کیا ہماری سیاسی آئیڈیالوجی بھی ایسی نہیں بن گئی کہ مارشل لاء لگنے یا کوئی جمہوری حکومت مسمار ہونے پر مٹھائیاں بانٹنے والے آ جاتے ہیں؟ اور جہاں موقع ملے، ہم سب بھی ڈکٹیٹر کی طرح ’ابو‘ بننے کی کوشش نہیں کرتے؟

ہمارے صدمے جعلی، ناپائیدار اور مصنوعی ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اب معلوم ہی نہیں رہا کہ جمہوریت کیا ہے اور رضامندی کیا ہے۔ ایک دوست کے بقول یہ سماج عورت کا جہنم ہے جسے تمام حقوق تھیوری کے اعتبار سے مل چکے ہیں۔ جو بھی عملاً اُن حقوق کو مانگے یا جتائے گی، اُس کے ساتھ ہونے والا سلوک باقیوں کو بھی مفلوج کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک ہمیں اپنی آئیڈیالوجی سے محبت ہے، اور ہم اِسے گھر سے لے کر آفس تک قائم رکھے ہوئے ہیں، یہی کچھ چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply