سپیشی یا نوع کیا ہے؟/ڈاکٹر حفیظ الحسن

حیاتیات کی سائنس میں سپیشی یا نوع کی تعریف یہ ہے کہ ایک قسم کی نوع کے جاندار آپس میں جنسی تال میل کے ذریعے اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو ملتی جلتی انواع آپس میں جنسی عمل کے تحت بچے تو پیدا کر سکتے ہیں مگر وہ بچے آگے نسل نہیں بڑھا سکتے۔ اسکی مثال ایک گدھے اور گھوڑے سے پیدا ہونے والے خچر کی ہے۔ خچر کوئی نسل نہیں کیونکہ خچر اپنی نسل آگے نہیں بڑھا سکتے۔ مگر اگر ماضی میں جائیں تو گھوڑے اور گدھوں کے جدِ امجد ایک تھے جن سے یہ دو مختلف انواع میں بٹے۔

ارتقاء میں نوع کے بٹنے کو Speciation کہتے ہیں۔ تردّد کر کے گوگل بابا سے پوچھ لیجیے کہ اسکی ماضی اور موجودہ مثالیں کن جانداروں میں ملی ہیں۔ ارتقاء کے نظریے میں یہ اہم نکتہ ہے۔ اس حوالے سے ارتقاء کے ناقدین کی بچگانہ دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر ماضی میں ایک جاندار سے دوسرے جانور کی نوع تقسیم ہوئی تو یہ آج کیوں نہیں ہو رہا۔ یہ تنقید جو بھی کرتا ہے اسے جواب دینا دیوار میں سر مارنے کے برابر ہے، کیونکہ یہ سوال بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ تنقید کرنے والے صاحب کا ارتقاء کے حوالے سے علم صفر ہے۔ کیونکہ ارتقاء یوں نہیں ہوتا کہ آج کوئی جانور سویا اور کل صبح اٹھا تو وہ مختلف نوع کا جانور تھا۔ ارتقاء میں جاندار کے جینز اور ڈی این اے میں تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں اور محض وہ جاندار جن میں ایسی تبدیلیاں ہوئی ہوں جو اُنہیں اُنکے ماحول میں بقا کے لیے موافق ہوں وہ ہی اگلی نسلوں تک رہتی ہیں۔ اسکی مثال یوں لیتے ہیں۔
فرض کریں ایک کیکڑے کے باہری خول پر کچھ نشانات بنتے ہیں جو محض اتفاقیہ ہیں۔ اب اگر اُس علاقے میں جہاں ایسے کیکڑوں کا شکار کیا جاتا ہے وہاں موجود مچھیرے اُن کیکڑوں کو واپس سمندر میں پھینک دیں جن کے باہری خول پر نشان انسانی شکل سے ذرا بھی تشبہہ رکھتے ہوں تو سمندر کے اس علاقے میں اس طرح کے کیکڑے بڑھ جائیں گے کیونکہ مچھیرے انہیں نہیں پکڑیں گے۔ جس قدر ایک کیکڑے کا باہری خول انسانی شکل سے جتنا زیادہ ملے گا اُتنا اس کیکڑے کے نہ پکڑے جانے اور زندہ رہنے کا چانس بڑھ جائے گا۔ سو وقت کیساتھ ساتھ باقی کیکڑوں کی نسبت یہ کیکڑے زیادہ ہوتے جائیں گے۔ اسے چناؤ کہتے ہیں۔ اس معاملے میں چناؤ انسانوں یعنی مچھیروں نے کیا۔ یہ کیکڑوں کی ایک خاص نسل ہے جو چاپان کے سمندروں میں پائی جاتی ہے انہیں Heikegani کہتے ہیں۔مگر اسی طرح کا چناؤ جب ماحول میں ہونے والے فطری عوامل سے ہوتا ہے تو اسے قدرتی چناؤ یعنی نیچرل سلیکشن کہتے ہیں۔ ارتقاء کا نظریہ دراصل ان دو ستونوں پر کھڑا ہے۔ ایک ڈی این اے میں ہونے والی متواتر تبدیلیاں۔ دوم ان تبدیلیوں کے باعث جانداروں میں پیدا ہونے والی خصوصیات کی ماحول سے موافقت۔

سو اگر کوئی فرمائش کرے کہ ایک نوع سے دوسری نوع ایک دن یا ایک ہفتے میں دکھائیں تو اسے جواب دیجیے کہ ایک بچے کو پیدا ہونے میں نو ماہ تک لگتے ہیں تو کیا ایک بچے کو ایک دن میں پیدا نہ کرنے کی دلیل پر یہ بات کی جا سکتی ہے کہ بچے کی پیدائش ہی دراصل ایک جھوٹ ہے۔ بچے پیدا نہیں ہوتے اوپر آسمان سے نیچے گرتے ہیں۔

ذاتی طور پر میں ارتقاء پر بحث کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو کئی طرح سے ثابت شدہ ہے، آج سے نہیں صدیوں سے۔ اس پر بے انتہا تحقیق ہو چکی ہے، کئی سائنسدان اس پر زندگی کے قیمتی سال صرف کر چکے اور مزید تحقیق اسے روز بروز مزید پختہ کر رہی ہے۔ ارتقاء کو ثابت کرنا گویا ایسا ہے کہ آپ پیہے کو دوبارہ ایجاد کر رہے ہوں یا نیوٹن کے قوانین کو ثابت کر رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیوٹن کے قوانین ہوں یا آئن سٹائن کی تھیوری یا نظریہ ارتقاء ان سب پر علمی گفتگو کی گنجائش تو موجود ہے مگر انہیں سِرے سے رد کر دینا علمی بددیانتی ہو گی۔ اگر کسی کو انہیں رد کرنا ہے تو یہ گز ہے اور یہ میدان۔ فیس بک پر اِنکو غلط ثابت کرنے کی بجائے لیبارٹریوں میں تجربات کیجیے۔شواہد اکٹھے کیجیے ، مقالات لکھیے، تحقیق کیجیے اور جو جو شواہد ارتقاء کے حق میں ملے ہیں ان سب کو ایک ایک کر کے رد کرتے جائیے۔ کس نے روکا ہے؟ سائنس میں یہی طریقہ نئے علم کو حاصل کرنے کا ہے۔ سائنسدانوں کو کوئی شوق نہیں ہوتا کہ جیسے فطرت کے اصول ہیں انکے خلاف اُنہیں محض کسی کے نظریات کی ضد میں غلط کہتے پھریں۔ نیوٹن کے قوانین کو خود بنا کر کیا کوئی جہاز اُڑ سکتا ہے یا آئن سٹائن کی تھیوری کو رد کر کے کیا کوئی مائی کا لال جی پی ایس سسٹم بنا کر دکھا سکتا ہے تو سو بسمہ اللہ۔ منہ سے جھاگ نکالنے سے یا فیس بک پر ملاکھڑے کرنے سے حقائق نہیں بدلتے۔ سنجیدہ ہو کر سائنس سیکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ ارتقاء پر بات اس لیے آج کی ہے کہ اس نظریے سے ہمیں سائنسی طرزِ فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ایمانداری کے ساتھ مکمل حقائق کو جاننا ہی سائنس کا دوسرا نام ہے چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply