سنگین مسئلہ۔۔مرزا مدثر نواز

اسے کراچی شہر سے بے پناہ محبت ہے اور اس شہر کا دلدادہ ہے‘ زمانہ طالبعلمی میں اسے جب بھی کراچی جانے کا موقع ملتا‘ اس کا بیگ تیار ہوتا اور وہاں جا کر وہ خوب لطف اندوز ہوتا تھا۔ ملازمت شروع کرنے کے بعد سفر کا یہ سلسلہ تھم سا گیا اور وہ خیالوں میں اپنے بیتے سفر کو یاد کرتا رہتا۔ کئی سال کے تعطل کے بعد فیملی فنکشن میں شرکت کرنے کے لیے اس نے کراچی کے لیے رخت سفر باندھا۔ واپسی پر ملاقات میں اس سے سفر اور شہر کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بڑی مایوسی سے جواب دیا کہ اس دفعہ شہر کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا‘ جونہی آپ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کوڑا کرکٹ اور جگہ جگہ بکھرے پلاسٹک کے بیگ آپ کا استقبال کرتے ہیں‘ اتنی گندگی تو پہلے کبھی نہیں دیکھی‘ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شہر ہے جس کو کبھی تیزی سے ترقی کرتے ہوئے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ وہ شہر جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے‘ جو چھوٹا پاکستان کہلاتا ہے‘ اس کو نہ جانے کیوں لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی کے شہری لاہور‘ اسلام آباد اور پشاور جیسی جدید و بہترین میٹرو بس سروس سے ابھی تک محروم ہیں۔

گاؤں یا چھوٹے قصبوں میں میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن کا وجود نہیں ہوتا‘ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت صفائی قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں خواتین صبح صادق سے لے کر رات گئے تک کھیتوں اور گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ گلی کی صفائی کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا جس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی‘ کسل‘ سستی و کاہلی و تساہل پسندی تو ان کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزری تھی۔ وقت گزرا‘ مال و دولت کی بہتات ہوئی‘ کھیتوں کی مصروفیت ختم ہوئی تو گھر کے کام کاج بھی محدود ہوئے‘ سستی و کاہلی و آرام پسندی نے بھی ڈیرے ڈالے اور آج کی ساس کو بہو سے سب سے بڑی شکایت دیر سے اٹھنے اور صفائی ستھرائی میں عدم دلچسپی ہے۔ آج اپنے گھر کی حدود میں واقع گلی و نالی کی صفائی کرنے میں عار محسوس کیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس اس دور میں بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سر شار کچھ شخصیات تقریباََ ہر محلہ میں موجود ہیں جو یہ سوچے بغیر کہ دوسرے نہیں کرتے تو میں کیوں کروں‘ اپنے ہاتھوں سے گلی و محلہ کی صفائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ میاں صاحب بھی ہمارے محلہ کی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جو تقریباََ روزانہ محلہ کی نالیوں کی صفائی کر رہے ہوتے ہیں‘ اگر انہیں کہا جائے کہ پورے محلہ میں کسی کو بھی اس کام کا احساس نہیں ہے تو آپ کیوں مشقت اٹھاتے ہیں؟ ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب اس فانی دنیا سے ابدی جہاں جانے کا بلاوہ آ جائے تو شاید اسی کام سے ہی کوئی بچت ہو جائے کیونکہ ہمارے مذہب میں اس کام کا بڑا اجر ہے‘ کوئی دوسرا نہیں کرتا تو نہ کرے‘ میں تو یہ کام خالص معبود برحق کی رضا کے لیے کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن‘ نا انصافی اور عدم مساوات ہمارے معاشرے کے سنگین مسائل ہیں‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ اب گندگی بھی ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ہم من حیث القوم گندے ہیں اور صفائی کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے حالانکہ دین فطرت نے اس کو آدھا ایمان کہا ہے‘ آدھا ایمان کا درجہ دینے کا مقصد اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ بڑے بڑے ہسپتال‘ ریسٹورنٹ‘ ہوٹلز‘ دفاتر تک میں صفائی کے ناقص انتظامات نظر آتے ہیں اور واش رومز میں صابن تک نایاب ہوتا ہے۔ پبلک مقامات کے واش رومز کی حالت انتہائی گندی ہوتی ہے اور ہم میں سے کوئی بھی خود کو ان کی صفائی کا ذمہ دار خیال نہیں کرتا۔ ہم آج تک اپنی قوم کو یہ نہیں سکھا سکے کہ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے جو گندگی ہم پھینکتے ہیں وہ کسی نہ کسی شکل میں واپس ہم تک ہی پہنچتی ہے۔ ہم گندے ہاتھوں سے کھانا کھا لیتے ہیں‘ آلودہ پانی پی لیتے ہیں اور قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کی درجہ بندی میں ہم اوپر کے نمبرز پر موجود ہیں۔ جہاں چاہا گاڑی روک کر گند پھینک دیا‘ شاپر بیگ‘ ریپرزراستہ میں ہی پھینک دیے‘ عین راستہ کے درمیان گلہ صاف کر لیا‘ پبلک ٹوائلٹ استعمال کر کے پانی نہ بہایا‘ پارکس میں کوڑا جہاں چاہا پھینک دیا‘یہ ہمارے لیے عام سی باتیں ہیں۔ ان تمام باتوں سے بچنے کے لیے اور انہیں برا سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت پر توجہ دینی ہو گی‘ صفائی کی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ بچے کی پہلی درسگاہ کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینی ہو گی تا کہ یہ دنیا آئندہ آنے والوں کے لیے ایک بہترین جگہ بن سکے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply