شادی خانہ آبادی

20 مارچ کا دن میری زندگی کا ایک عجیب سا دن تھا اور سال تھا 2010، نا جانے کتنے خیالات میرے ذہن میں آتے جاتے رہے۔ تمام رات آنکھوں میں ہی کاٹی ۔کھلی چھت پر لیٹا ہوا ستارے دیکھتا رہا اور جیسے ہی مؤذن نے اذان دی ایک ربورٹ کی مانند اٹھا اور مسجد پہنچا اور انتہائی خالی دماغی کے ساتھ میں واپس آیا ۔جیسے ہی گھر داخل ہوا تو احساس ہوا کے گھر تو مہمانوں سے بھر پڑا ہے اور اب آہستہ آہستہ اٹھنا شروع ہو گئے ہیں والدہ نے کہا اتنے مہمان ہیں اور تم نے ابھی تک ناشتہ تیار نہیں کروایا اور جسطرح گھر داخل ہوا اسی طرح واپس مڑ گیا۔
نا جانے کیوں عجیب عجیب سا لگ رہا تھا، ناشتہ سے فارغ ابھی ہوئے بھی نہیں تھے کے میرے ماموں (مرحوم) کی ایک گرجدار آواز سنائی دی اور تمام عورتیں اور بچے اپنے اپنے سامان کی طرف اس طرح بھاگے جیسے کے لان کی سیل میں خواتین ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتیں ہیں، ماموں نے ایک فاتحانہ نظر سے اس بھاگتے ہوے ہجوم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے میرے والد صاحب کو کہا کے بھائی جان یہ ایسے مانتی ہیں بات۔۔ اور والد صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا یار تم ہی کرسکتے ہو۔۔ اس گفتگو کے بعد جیسے ہی ان کی نظر میری طرف پڑی فوراً آنکھیں سرخ ہو گئیں اس سے پہلے کے کچھ ارشادات ہوتے میں نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ جیسے ہی بالائی منزل پر اپنے کمرے میں داخل ہوا تو چھوٹا بھائی جو فرانس سے آیا ہوا تھا بولا آپ بھی نہا لو اور کپڑے بدل لو، میں ایک مکینیکل انداز میں نہا کر باہر نکلا تو بھائی بولا یار حجامت ہی بنوا لینی تھی میں نے منمناتے ہوئے جواب دیا یار کل سے طبعیت ٹھیک نہیں سر بھاری بھاری ہے اور معدہ بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا اس نے میرے بال غسل خانے میں ہی کاٹے اور بولا شیو بنا کر باہر آؤ۔
اس کے بعد کیا کچھ ہوا معلوم نہیں بس اتنا یاد ہے کے کار کا سفر تھا میرا کزن گاڑی چلا رہا تھا والدہ اگلی سیٹ پر سو رہی تھیں اور چھوٹا بھائی جو میرے ساتھ پیچھے بیٹھا ہوا تھا مسلسل کزن کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا، نا جانے اسی حالت میں کتنی صدیاں بیت گئیں اور ہوش اس وقت آیا جب میرے ایک تایا نے کہا کے بیٹا ادھر دستخط کر دو اور فورا ًمجھے گلے لگا کر بولے بیٹا۔۔”شادی مبارک ہو”
میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا تو میرے کزنز والد صاحب اور چھوٹا بھائی بے تحاشہ ہنستے ہوے میری حالت کا مذاق اڑا رہے تھے۔
بتانے کا مقصد یہ تھا کے آج میری شادی کی ساتویں سالگرہ ہے اور جتنے میرے اس دن حواس اُڑے ہوے تھے الحمداللہ آج بھی اتنے ہی ہیں۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply