خلع یا طلاق کا حق۔۔جمیل آصف

دو عام افراد کے تنازعےسے زیادہ خطرناک معاشرے کے بگاڑ میں ازدواجی تناؤ ہے ۔ یہ تنازع  میاں بیوی کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ دو گھرانوں اور پھر ان دو گھرانوں سے پھیل کر دو خاندانوں، پھر ان سے منسلک دو قبیلوں اور مختلف احباب تک پھیل جاتا ہے، بالآخر معاشرے میں گراوٹ کا باعث بنتا ہے ۔

شیطان اسی لیے معاشرے میں بگاڑ کی تمام شکلوں سے زیادہ خوش میاں بیوی کے مابین نزع سے ہوتا ہے ۔کیونکہ میاں بیوی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد اور نسلِ  نوء کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔

معاشرے کے لئے صحت مند ذہنی جسمانی افراد کا اضافہ انہی کے  مرہون منت ہوتا ہے، اگر یہی رشتہ تناؤ زدہ ہو جائے بدگمانی، بدتہذیبی اور اعتماد کے فقدان کے ماحول میں پھر تربیت اولاد کی ذمہ داری ناقص نتائج کی صورت سامنے آتی ہے۔

معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لیے اس تناظر میں
قرآن مجید نے اسی لیے واضح طور زوجین کے رشتے کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے، الفت و محبت میں توازن کیسے رکھا جائے اور نزع کی حالت میں کیا برتاؤ ہو، پورا ضابطہ اخلاق وضح کیا گیا ہے ۔رشتے کے جڑاؤ سے لیکر اس کی علیحدگی کے مراحل تک سب احسن طریقے سے بیان  کیا گیا ہے  تاکہ معاشرے میں تناؤ، انتشار اور ناانصافی کی بدولت فساد فی ارض سے بچا جا سکے ۔

بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند میں ہندوانہ اثرات سے جہاں روز بروز بڑھتی رسومات سے نکاح ایک بہت ہی پیچیدہ عمل بن چکا ہے وہاں کسی بھی قسم کی نزع کی حالت میں الجھاؤ سے پیدا شدہ صورتحال میں قرآن کے احکامات اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں خوش گوار انداز میں علیحدگی کے بجائے اَنا، دوسرے کی بے توقیری، بچوں کی محبت، خاندانی دباؤ، رشتے داریوں کے مختلف پہلوؤں، وٹے سٹے کی بندش سے زبردستی کے نبھا رکھے جاتے ہیں ،جو ایک ایسے الاؤ کی مانند بھڑکتا ہے جس سے جہنم کی آگ کی لپٹیں آتی ہوں ۔ جس کی تپش سے سماجی، معاشرتی اور معاشی اقدار اس آلاؤ سے جھلستی دکھائی دیتی ہیں  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس زبردستی کے نبھاؤ والی ازدواجی زندگی گزارنے والے افراد کے بارے حدیث مبارکہ میں وعید آئی ہے ،شریکِ حیات کی کج روی کا شکار فرد اس سے ہر وقت نزع کی حالت میں رہتا ہے، شکوے شکایت کرتا ہے لیکن اسے چھوڑ نہیں دیتا، تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔کیونکہ جب اللہ نے ایسی کیفیت میں ایک آسان رخصت کا راستہ خلع یا طلاق کی صورت دیا ہے تو اس حق کو استعمال کیوں نہیں کیا ۔شاید ایسی صورت میں دونوں افراد کو ایک اچھا شریک سفر مل جائے بنسبت اس شریک حیات کے جس کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم آپ کو تنگی، ترشی اور اذیت کا سامنا رہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply