بانو آپا

بانو قدسیہ چلی گئیں۔ ادب کی دنیا یتیم ہو گئی، قدر اور روایت دم توڑ گئی، شفقت اور محبت بھی رخصت ہو گئی۔ بڑے بڑے ناموں کے جانے سے پیدا شدہ خلاء مزید وسیع ہو گیا۔
بانو آپا سے پہلا تعارف راجہ گدھ کے ذریعے ہوا، اور ادب کی دنیا میں بانو آپا کی شہرت کا سبب بھی شاید یہی ناول بنا۔ جس وقت پہلی دفعہ راجہ گدھ پڑھا اُس وقت تو وہ سمجھ بھی نہیں آیا لیکن تحریر کے سحر نے ایسا جکڑا کہ پورا ناول پڑھ کر ہی دم لیا۔ میں نے انہیں زیادہ پڑھا بھی نہیں، صرف راجہ گدھ اور راہِ رواں۔ راہِ رواں کہ جس میں انہوں نے اپنی اور اشفاق احمد کی زندگی کو قلمبند کیا ہے، قابلِ رشک جوڑے کی کہانی بلکہ قابلِ رشک سے بھی زیادہ ایک مزیدار جوڑے کی زندگی کی کہانی۔ اِس کے علاوہ ان کے انٹرویوز کافی بار سنے، ہمیشہ ایک ہی احساس ہوا، سر تا پا ایک مکمل روایت پسند عورت، مغربی اقدار پر تنقید کرتی ہوئی ایک مکمل مشرقی عورت, ایک ایسی عورت جو صرف اور صرف اپنے نام کی بدولت پہچانی جاتی تھی پھر بھی عورت کی مادر پدر آزادی اور نام نہاد حقوقِ نسواں پر تنقید کرتی ہوئی عورت۔
میں شاید اِس سے زیادہ بانو آپا کو نہیں جانتا لیکن اُن کی تصویر جب کبھی بھی نظر کے سامنے آئی، شفقت اور محبت کا روپ نظر آیا۔ سر کے سفید بالوں پر سفید دوپٹہ ڈھیلا ڈھالا سا اوڑھے ہوئے ،ایک دھیمی سی مسکراہٹ لیے ایک فرشتہ نما روپ۔ وہ میری نانی دادی کی عمر ہوں گی لیکن پھر بھی اٗن کو آپا کہنے میں جو اپنائیت محسوس ہوتی ہے وہ کسی اور طرح سے پکارنے میں نہیں ہے۔ اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور بانو قدسیہ، اس مستطیل (rectangle) کا آج آخری اینگل بھی رخصت ہو گیا۔ راہِ رواں میں مذکور دوسرے ساتھی اشفاق احمد آج خوش ہوں گے کہ ہجر کا موسم ختم ہو گیا، انہوں نے یقیناً آگے بڑھ کر اپنی رفیقہ حیات کا استقبال کیا ہو گا لیکن بانو آپا کے چاہنے والوں کے ساتھ آسمان بھی آج بہت افسردہ دکھائی دے رہا ہے، اٗس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے، ذرا کم ہوتے ہیں کہ پھر سے چھما چھم بہنے لگتے ہیں۔ آسمان بھی انہیں آنسوؤں کے ساتھ رخصت کر رہا ہے۔ سچ مچ میں اٗن کی لحد پر شبنم افشانی کر رہا ہے۔ اللہ حافظ بانو آپا، خدا کرے کہ دنیا کی زندگی کی طرح آپ کی اگلی زندگی بھی خوشگوار ہو۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply