(خواب میں خلق ہوئی ایک نظم)
اپنے اندر اس طرح داخل ہوا وہ
جیسے رستہ جانتا ہو
جیسے اس بھورے خلا کی
ساری پرتوں کو کئی صدیوں سے وہ پہچانتا ہو
اپنے اندر دور تک جانے کی کیا جلدی ہے مجھ کو؟
اس نے خود سے پوچھ کر مونچھوں کو اپنی بل دیا
اور ہاتھ سے طرّے کو کچھ اونچا کیا۔۔
پھر خود سے بولا۔ ’’مردبچہ ہوں، مجھے جانا ہی ہو گا!
کون ہوں میں؟ بیج میرا کیا ہے؟ کس دھرتی سے میں پیدا ہوا ہوں؟
آج مجھ کو جاننا ہو گاکو میری بیخ کیا ہے ۔۔
روک مت مجھ کو
مری بیمار نبضوں کے مسیحا، ذہن میرے!‘‘
گندمی رنگت کی ہلکی دھند یکدم
چھٹ گئی تو ایک منظر سامنے تھا
کلبلاتے لاکھوں کیڑے
تیرتے گدلی سی نالی میں، دمیں اپنی ہلاتے
دوڑ میں مصروف آگے بڑھ رہے تھے!
کون تھے یہ؟
تیز رو اس قافلے کا وہ بھی شاید فرد ہی تھا
دوسروں جیسا، مگر ممتاز سب سے
’’میرے بچنے کا یہی اک راستہ ہے ۔۔
دوڑ میں اوّل رہوں میں
اور منزل پر پہنچ کر
باقیوں کے واسطے حجرے کا رستہ بند کر دوں!‘‘
وہ بہت تیزی سے آگے۔۔ اور آگے۔۔ اور آگے
تیر کر منزل پہ پہنچا
۔۔۔۔۔۔۔
’’کھول آنکھیں! ایک ہی لمحے میں ساری زندگی دیکھے گا کیا تو؟‘‘
کوئی اس سے کہہ رہا تھا
(موت کا اندھا فرشتہ ہی تھا شاید!)
’’اور کیا کچھ دیکھنا باقی بچا ہے؟‘‘
اس نے پوچھا، اور آنکھیں بند کر لیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔
نروس بریک ڈاؤن کے بعد ہسپتال میں ادویات کے زیر اثر نیم بے ہوشی کے عالم میں یہ نظم خلق ہوئی اور ہوش آجانے کے بعد جس قدر یاد رہ گئی، بول کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک دوست کو لکھوائی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں