زرد صحافت کی بدترین مثال۔۔ گل بخشالوی

اُدھر تم، اِدھر ہم۔ ۔مطلب،نہ میں ،نہ تم۔۔۔ہم دونوں!

ممتاز صحافی اور کالم نگار کے ہاتھوں ضبط تحریر میں آنے والی وہ شہ سرخی ہے جو روزنامہ ’آزاد‘کی شہ سرخی تھی جس کا تذکرہ آج بھی چوالیس سال گذرادھر تم۔ ادھر ہم۔ جانے کے باوجود تقریباً ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی اخبار میں موجود ہوتا ہے۔بد قسمتی سے یہ سرخی پاکستان میں زرد صحافت کی وہ بدترین مثال ہے جو غلط العام کی طرح تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ بھٹو کے ناقدین اور مخالفین آج بھی اسے اپنے مقاصد کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جو بھٹو کی تقریر کے سیاق و سباق اور مفہوم سے یکسر مختلف تھی اور ہے۔بالکل اسی طرح متضاد ہے جیسے کوئی دیوار کو بلی کہہ کر مخاطب کرے یا اجالے کو تاریکی قرار دے۔ خود عباس اطہر نے ماہنانہ ’شوگر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا اعتراف کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’ادھر تم۔۔ادھر ہم ‘والی سرخی خود بنا کر لگائی تھی۔

میں نے ماضی میں بھی پارٹی میں کم از کم دس بار کہا ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے اور حقیقی صورت حال منظر عام پر لائی جائے۔میں خود اس جلسے میں موجود تھا۔میں ایک نہیں ہزاروں ایسے افراد پیش کر سکتا ہوں جو اس جلسے میں موجود تھے اور بھٹو کی تقریر کے حقیقی پس منظر سے آگاہ تھے۔جب بھٹو نے یہ الفاظ کہے ”ادھر تم۔۔ادھر ہم “۔اس سے بھٹو کی مراد یہ تھی کہ ادھر مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان رہنما ہیں اور ادھر ذوالفقار علی بھٹو لیڈر ہیں۔بھٹو کے اس جملے کے ساتھ ایک اور جملہ بھی تھا ،جو اسمبلی میں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔

یہ جملہ دراصل احمد رضاقصوری کی طرف اشارہ تھا جس کو بھٹو بہت پیار کرتے تھے اور اس پر بہت اعتماد کرتے تھے۔بھٹو چھ نکات پر مجیب سے مذاکرات کر رہے تھے اور ساری پارٹی کا فیصلہ تھا کہ عوامی لیگ کے چھ نکات پر کسی فیصلہ تک پہنچنے بغیر اسمبلی میں نہ لایا جائے۔صر ف احمد رضا قصوری نے اخبارات میں یہ بیان دیا کہ وہ پارٹی کے فیصلے کے بر عکس اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا تو اس کو بھٹو نے یہ جواب دیا کہ جب جائیں گے ہم اکٹھے جائیں گے۔اکیلا کوئی نہیں جائے گا۔بھٹو نے منٹو پارک کے سامنے شاہی قلعہ کی طرف جانے والی سڑک پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے۔

نیوز روم میں کام کے حوالے سے اپنے تجربے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’ وہاں خبروں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کر نا ہوتا تھا جو شروع میں مجھے نہیں آتا تھا۔
میر ی جستجو تھی کہ نیوز ایڈیٹر بننا ہے۔یہ موقع مجھے روزنامہ ’آزاد‘ میں ملا۔وہاں میں نے ’ادھر تم۔ادھر ہم ‘ جیسی سرخی لگائی جو ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔اب ،جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی ’ادھر تم۔ادھر ہم ‘والی سرخی سے بھی یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ بھٹو نے کہا تھا کہ ہماری نشستیں اگرچہ کم ہیں پھر بھی مغربی پاکستان میں حکومت ہم ہی بنائیں گے۔ ۔پنجاب اسمبلی کے سامنے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے ایک فقرہ کہا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان والے یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے غلام ر ہیں تو اس کے جواب میں ہم ان کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔میں نے اسے بھی شہ سرخی بنایا تھا۔

میری چھٹی حس کہتی تھی کہ بھٹو اور مجیب کے مابین صلح ہو نہیں سکتی۔ عباس اطہر کا کہنا ہے کہ جس دن یہ سرخی چھپی اسی دن پیپلز پارٹی کی طرف سے تردید آگئی تھی۔ میں نے تردید کو شہ سرخی بنا یا تھا۔۔نہ میں نہ تم۔ ہم دونوں۔(پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر رانا شوکت محمود کی نوشت ’انقلاب اور رد انقلاب کی کہانی ‘ سے ماخوذ صفحات 101—107)

کاش پاکستان پیپلز پارٹی کی خود پرست قیادت شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی وطن پرستی اور غریب پروری کی اس تحر یک کو جگائے رکھتی جس کے لئے بھٹو نے اپنے خاندان کے روزشن چراغوں کو ظلم و جبر کی  تیز ہواؤں کے دوش پر رکھ کر اپنے بعد سب کو جمہوریت کی شادابی کے لئے قربان کیا ، پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیا لوں کے دل میں یہ نعرہ گونج رہا ہے آج بھی بھٹو زندہ ہے لیکن موجود ہ قیادت خود غرضی اور دولت پرستی کے اندھے پن میں پیپلز پارٹی کی قومی سیاست میں بھٹو ازم،بھٹو کے خواب۔ بھٹو کے کردار و افکار کو بالائے طاق رکھ کر دو قومی مجرموں کے گیت گا رہی ہے لیکن جانے پیپلز پارٹی کی قیادت کیوں بھو جاتی ہے کہ جس قومکے شعور کو قو می سیاست میں شادابی کے لئے بھٹو نے جگایا اور خون دیکر شاداب کئے رکھا ہے ۔

قوم جانتی ہے کہ موجودہ قیادت صرف بھٹو کے نام پر انہیں بے وقوف بنا رہی ہے لیکن قیادت کو غلظ فہمی ہے اور جیالے خاموش ۔

بلاول بھٹو کو بلاول بھٹو کہنا بھی بھٹو خاندان کے خون شہید کی توہین اور شہید قیادت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اس لئے کہ بلاول زرداری اپنے باپ کے قومی جرائم کی پردہ پوشی میں شہید قیادت کے سفاک قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھٹو کا نام لیکر ان کے گیت گا رہے ہیں لیکن جانے بلاول زرداری اور موجودہ خود غرض اور خود پرست قیادت کو کیا غلط فہمی ہے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام ان کو بھٹو کے نام پر اعتماد کا ووٹ دیں گے لیکن بلال زرداری نہیں جانتے شایدکہ دہ اپنے نانا اپنے دو ماموں  اور اپنی والدہ کےساتھ شہید جیالوں کے دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہیں بلاول گزشتہ انتخابات میں اپنا مقام لیاری میں دیکھ چکے ہیں کاش بلاول اپنے گریبان میں گردن کی ہڈی جھکا کر د یکھتے تو انہیں بھٹو شہید کا وہ لکھا نظر آجاتا جو بھٹو نے کہا تھا کہ جب بھی لیاری میں پیپلز پارٹی کا امید وار الیکشن ہار گیا تو سمجھ لینا پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہو گیا ہے لیاری میں پیپلز پارٹی کا امید وار نہیں بلاول ہارا تھا جانے کون سا گھمنڈ ہے کہ اس کے باوجود اس کی آنکھ نہیں کھلی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج بھی جیالے اپنے مقام پر کھڑے ہیں اگر ان جیالوں کا دل جیتنا ہے ۔تو شہید قیادت کے قاتلوں کا ساتھ چھوڑ دو اور قوم سے وعدہ کرو کہ شہید قیادت کے قاتل میر ے دشمن ہیں ان کو پاکستان کے غیور عوام کی طاقت سے کیفر کردار تک پہنچاؤں گا قوم سے یہ وعدہ کرو شہید بھٹو خاندان دشمن چاہے وہ تمہارے اپنے ہی کیوں نہ ہوں کی چھتری سے باہر پاکستان کے بنیادی حقوق سے محروم قوم کے حقیقی راہنما آج کے مارتن کنگ لوتھر بن جاؤ  پاکستان کے عوام تم پر ووٹوں کی برسات کر دیں گے اگر بلاول زرداری کے لئے ایسا ممکن نہیں تو اپنا اور قوم کا وقت برباد نہ کریں اس وقت زرداری پیپلز پارٹی کا چہرہ آصف علی زرداری کی زرد اورخشک ہے اور اس کا انداز ہ بلاول کو آنے والے الیکشن میں اس وقت ہو جائے گا جب پیپلز پارٹی کے امیدوار الیکشن میں زرد پتوں کی طرح اڑتے نظر آئیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply