اپنی ڈائری کے ورق نے رلا دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈائری میرے سامنے کھلی تھی ، آنکھیں نم تھیں ، ضبط کے بندھن جوڑے رکھنا مشکل ہو رہا تھا ، ماضی کا ایک ایک لمحہ سامنے تھا ، وہ مسکراتا چہرہ ، روشن پیشانی اور ہونٹوں پر تبسم دل ودماغ پر حاوی تھا ، کتنا ہی وقت گزر گیا کہ میں مبہوت بیٹھا رہا اور یاد ماضی میں کھویا رہا ، شاید گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا تھا کہ جب میری نظر اپنی ڈائری کے اس ورق پر لکھی تحریرپر پڑی، جو آج میرے لیے کسی پاکیزہ تبرک سے کم نہیں ۔یہ سال 2011 کے چھٹے مہینے کی پندرہ تاریخ اوربدھ کا ایک روشن دن تھا ، آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے، دوستوں کے ہمراہ سرگودھا یونیورسٹی میں اپنے ماس کیمونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے خوش گپیوں میں مصروف تھے ، چہروں پر روشن مستقبل کا درپن تھا ، یہ ہمارا یونیورسٹی میں آخری دن تھا ، اس کے بعد ہم نے باقاعدہ عملی زندگی کی طرف قدم بڑھانا تھا ، ایک دوسرے سے عہد و پیمان ہو رہے تھے کہ بھولنا نہیں ، رابطے میں رہنا ہے ، دو سال میں بیتے ہوئے تلخ و شیریں لمحات کو یاد کیا جا رہا تھا ، اور سب سے زیادہ قہقے ان باتوں پر لگ رہے تھے کہ جن کی وجہ سے ہماری کئی کئی دنوں تک نیندیں اڑی رہی تھیں ۔اساتذہ کرام بھی مسرور تھے کہ ان کی محنت رنگ لے آئی اور ان کے بیٹوں جیسے طالب علم اب عملی زندگی کی طرف جا رہے ہیں ۔
اساتذہ محترم اعجاز احمد بھٹی ، عبد الرحمان قیصر اورنعمان یاسر صاحب اکٹھے کھڑے تھے ، اعجاز احمد بھٹی اور نعمان یاسر صاحب کی آپس میں دوستی زیادہ تھی اور عبد الرحمان قیصر صاحب اکیلے ان دونوں دوستوں کی جانب سے باتوں کے تابڑ توڑ حملوں کو نا صرف برداشت کر رہے تھے بلکہ معقول جواب بھی دے رہے تھے۔میں اس محفل میں پہنچا ، تمام اساتذہ نے کمال محبت سے میری طرف دیکھا ، میں نے استاد محترم اعجاز احمد بھٹی صاحب کو کہا کہ سر آپ کا کچھ وقت چاہیے ، چہرے پر مسکان سجاتے بولے ، شیرازی سارا وقت ہی تمہارا ہے ۔میرے ساتھ آئے ، میں نے ڈائری سامنے رکھ دی ۔سر میرے بارے میں کچھ لکھیں ، اور انہوں نے زبردست قہقہ لگایا ، ہاں شیرازی لکھ دوں میں نے کہا، جی سر جو دل مانے۔انہوں نے وہ الفاظ لکھے کہ جو آج دوبارہ پڑھتے ہوئے جہاں میرا دل اداس اور افسردہ تھا وہیں میرے دل و دماغ میں یہ خوشی بھی تھی کہ محترم استاد اعجاز احمد بھٹی صاحب نے جو میرے بارے میں لکھا وہ ان کے دلی جذبات تھے ، ایک ایک لفظ سے ان کی محبت سامنے آ رہی تھی،۔
انہوں نے لکھا کہ” میرے لیے بہت خوشی کا لمحہ ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہوں ،جو ذہین،تخلیق کار ، محنتی اور کام کے ساتھ لگن رکھنے والا شخص ہے ،جس میں کمال کا کام کرنے کا ہنر ہے ،میں تمہیں اپنا اچھا کام جاری رکھنے کا کہتا ہوں ، میں تمہیں ایک کامیاب ، عظیم پروفیشنل دیکھنا چاہتا ہوں ،خدا بزرگ و برتر تم پر اپنی رحمتیں کرے ، ایک خوبصورت اور بہترین زندگی گزارو”۔یہ وہ الفاظ تھے جو استاد محترم اعجاز احمد بھٹی نے میرے متعلق لکھے تھے، استاد محترم آج اگر آ پ زندہ ہوتے تو دیکھ کر ضرور خوش ہوتے کہ آپ کی نیک تمناؤں اور دعاؤں نے مجھے کم عرصہ میں پروفیشن میں کہیں آگے بڑھا دیا ہے ، آج جو کچھ ہوں آپ کی بدولت ہی ہوں اور پھر جب یہ عظیم شخص اس دنیا فانی سے اپنے شباب میں رخصت ہوا تو میرے سمیت ہر آنکھ نم تھی ، اسلام آباد سے خصوصی طور پر سرگودھا پہنچا تھا ، یہ ایک ناقابل برداشت نقصان تھا ۔ایک ایسے شخص کا نقصان کہ جس کو ہم سب کی خوشیاں اپنی خوشیوں کی طرح عزیز تھیں۔
ڈائری میرے سامنے کھلی تھی ، آنکھیں نم تھیں ، ضبط کے بندھن جوڑے رکھنا مشکل ہو رہا تھا ، ماضی کا ایک ایک لمحہ سامنے تھا ، وہ مسکراتا چہرہ ، روشن پیشانی اور ہونٹوں پر تبسم دل دماغ پر حاوی تھا ، کتنا ہی وقت گزر گیا کہ میں مبہوت بیٹھا رہا اور یاد ماضی میں کھویا رہا ، شاید گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا تھا کہ جب میری نظر اپنی ڈائری کے اس ورق پر لکھی تحریرپر پڑی، جو آج میرے لیے کسی قدر قیمتی سرمایہ ہے ۔

Facebook Comments

سید ارسلان عباس
ارسلان شیرازی اسلام آباد کے باسی اور سینئر پروڈیوسر ہیں ، اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ، اور جانتے ہیں کہ جیو اور جینے دو کی حقیقت کیا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply