چکوترہ کہیں کا۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کہیں سنا پڑھا تھا ” مرد سرہانے کا سانپ ہوتا ہے “میری قسمت میرے پاس ایناکونڈا ہے ۔زندگی بھر مجھ سے کیا کچھ نہیں چھپایا، لیکن میری ایک بات نہیں چھپا سکا ۔
ایک قلفی، ایک چکوترہ کھلا کے دوسو لائیک کمنٹ کے چکر میں تماشا  بنادیا ۔خدا کے بندے مزاح نگاری کے دسیوں اور طریقے ہیں ۔ضرور بیوی پہ ہی لکھنا ہے ۔؟
ناہید اختر نری میری تو فیس بک فرینڈ نہیں تھی ۔؟
راہ چلتے اتنا کہا کہ “آپ سالگرہ تو بہت اچھا وش کرتے ہو،لکھ دیں، ناہید کو اچھا لگے گا ”
مگر کوئی ایسے بھی کرتا ہے؟
سوچ، کا فیوز ہی اڑا دیا ۔صبح کی کمنٹ دیکھ دیکھ پچھتا رہی ہوں ۔
چارلفظ سنجیدگی سے لکھ دیتے تو چار لوگوں میں عزت رہ جاتی، بیس روپے کے چکوترے کیلئے تحریر کو وہ الٹ پلٹ کیا کہ سمجھ نہیں آرہی سالگرہ کس کی ہے، چکوترہ کس کا تھا، اور میرا قصور کیا ہے ۔؟
وہ تو ناہید بہت اچھی ہے ۔مروت میں  کچھ نہ کہا ۔
شام کو پھر کہنے لگے “آ ؤواک پہ چلیں ”
میں نے کہا “خبردار !میں فیضان کے ساتھ چلی جاؤں گی، آپ کے ساتھ نہیں، آدھا  درجن گول گپے کھلا کر دس درجن لوگوں کے کمنٹ پہ ہی ہی کروگے، فائدہ “؟
اکیلی گئی ۔سکھی رہی،
نہ دس جگہ کھڑے ہوکر بندے کبندے سے حال چال پوچھا، نہ تیزی سے گذرتی ہنڈا والے کی بہن کو ٹیوٹا والے کے ساتھ نتھی کیا ، ناک کی سیدھ میں گئی، اور دوگلاس جوس پی کر لوٹی، پیسے بھی نہیں دیے۔ ۔کہا
“کل اپنے چاچے سے لے لینا”
فیس بک پہ ہیرو بنے ہوئے ہیں، ڈر اتنا کہ کوئی موبائل نہ چھین لے، گھر چھوڑ  کر جاتے ہیں۔سڑک کنارے کھڑی گاڑی دیکھ کر مجھے سائیڈ پہ کردیتے ہیں،
“تمہیں کھینچ کے کوئی گاڑی میں ڈال کے لے گیا تو ”
میں نے پوچھا “تو ”
سوچا کہیں گے جان سے مار ڈالوں گا ۔کہنے لگے
“تو ۔۔۔خود ہی پچھتائے گا ”
اتنے دلیر بندے کے ساتھ میرا ہی حوصلہ ہے جو دوکلومیٹر اندھیرے میں آتی جاتی ہوں ۔
اچھا بھلا افسانہ لکھنا تھا، سیاپہ لکھ رہی ہوں ۔ لوگ کیا سوچتے ہوں گے ۔؟
چکوترہ کہیں کا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply