سوچ کے بارے سوچتے ہوئے اکثر ہم یہی سوچتے ہیں کہ جو ہم سوچ رہے ہیں، وہی درست سوچ ہے جبکہ ایسا سوچنا ہماری سوچ کی وہ غلطی ہے جس کو ہم برسوں سے پریکٹس کر رہے ہوتے ہیں ۔ہم اپنی سوچ کی اس غلط روی کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ہم اس بات سے بھی بے خبر ہوتے ہیں کہ ایسے مخصوص خطوط پر سوچتے سوچتے ہمارا ذہن ایسے راستے پیدا کر لیتا ہے جو ہماری سوچ کو محدود کر دیتا ہے جبکہ سوچ کی ایسی بناوٹ دراصل سوچ کی ایک واضح غلطی ہوتی ہے سوچ کی یہ غلطی اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ ہمیں یہ سوچنے کا بھی وقت نہیں دیتی کہ ہم جو سوچ رہے ہیں وہ حقیقت میں ایک غلط سوچ کا عکس ہے جس کے پس پردہ ہمارے بچپن کے ایسے غلط، نامعقول اور غیر حقیقی نظریات ہوتے ہیں جو سوچ کی ان غلطیوں کو جنم دےرہے ہوتے ہیں۔
عام طور پر لوگ سوچ کی ایسی غلطیوں پر اتنی توجہ نہیں دیتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص سوچ کے عمل میں موجود مدارج اور ان مدارج سے پھوٹنے والے خیالات کے بارے بالکل بھی آگاہی نہیں رکھتا اور صرف اسی دھوکے میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے کہ سوچ کے عمل کو سمجھنے، پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں جس وجہ سے ان کا یہ نظریہ مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ جو سوچ رہے ہیں ان کی سوچ کا جو میعار ہے وہ ایک جامع حیثیت کا حامل ہے جس میں بہتری کی کوئی ضرورت اور گنجائش نہیں۔
اپنی سوچ کے بارے ایسا سوچنا یقینا ً وہم کے ایسے سمندر کی مانند ہے جس میں خود پرستی ، نرگسیت ، انا اور ضد کے دریا آکر گرتے ہیں اور ان دریاؤں کے پانیوں کی آمیزش سے ایسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جن کےبھید خود اس شخص کی اپنی سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی درپیش مسئلے پر کون سی لہر کے ساتھ بہہ رہے ہیں اور وہ لہر اس کے سوچ کے عمل میں موجود دانش مندی کو کس طرح سے ہائی جیک کر رہی ہے جس کے نتیجے میں وہ لاشعوری طور پر ایسا فیصلہ کر لیتا ہے جس کے نتائج عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔
بنیادی طور پر اکثریت سوچ کے بارے سوچنا ہی نہیں چاہ رہی ہوتی کیونکہ جب بھی کوئی اپنی سوچ کے بارے سوچنا چاہتا ہے تو جلد ہی اس پر یہ بات آشکار ہو نا شروع ہوجاتی ہے کہ اس کی سوچ اتنی عقلمندی والی نہیں جتنا اس نے اپنی سوچ کے دانشمند ہونے کا وہم پال رکھا ہے جب وہ اس صورتحال کو بھانپ لیتا ہے تو وہ فوری یہ کوشش بھی کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ اپنی اس سوچ کے پیٹرن کو بدل ڈالے مگر جونہی وہ اس تبدیلی کو عملی طور پر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کواپنی سوچ میں موجود بچپن کے ان نظریات سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ برسوں سے پریکٹس کر رہا ہوتا ہے تو پھر وہ نظریات ایک ایسی دفاعی مزاحمت کرتے ہیں کہ نئی سوچ کے پیدا ہونے والے خیالات اس مزاحمت کا سامنا نہیں پاتے اور جلد ہی پہلے سے موجود سوچ کے پیٹرن کے آگے ہتھیار ڈال کر بچاؤ کی سہولت پیدا کرتے ہیں ۔ کیونکہ انسان کا اپنی سوچ پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سےوہ خود کو پہلے سے موجود سوچ کے حوالے کر دیتا ہے اور سوچ کی تبدیلی کے عمل میں پیش آنے والی تکلیف سے بچنے کا وقتی راستہ ڈھونڈ لیتا ہے ۔ جو کہ ایک الگ سے سوچ کی غلطی ہوتی ہے جس وجہ سے وہ اپنی سوچ کو اس معیار تک نہیں پہنچا پاتا جس سوچ کے معیار کے لیے اس نے کوشش کی ہوتی ہے سوچ کے اس الجھاؤ اور سلجھاؤ کی ریسلنگ میں جیت صرف اس کی ہوتی ہے جس کے پاس اتنی طاقت ہو کہ وہ اپنے ذہن اور سوچ کو اپنے قابو میں رکھ سکے نہ کہ خود کو ان کے قابو میں دے دے۔
اپنی سوچ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سوچ کے بننے کے عمل اور ماخذ کا جائزہ لیں جو ہم کو وہ وجوہات تلاش کرنے میں مدد دیں گےجن سے ہماری سوچ کے خدو خال بنے ہوئے ہیں ۔ ہوش سنبھالنے سے لیکر اب تک جس فیملی، ماحول، تعلیمی اداروں اور دوست یاروں سے ہمارا ساتھ رہتا ہے وہی ہماری سوچ کے پیٹرن بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یہی وہ عناصر ہیں جن کی اپنی سوچ کے رجحانات ہماری سوچ کی بنیاد رکھتے ہیں اب اگر غور کیا جائے تو آپ اس بات کو آسانی سے سمجھ لیں گے کہ آپ کے ذہن میں بنے ہوئے نظریات کے ڈھانچے دراصل آپ کے اردگرد کے لوگوں اور موجودات کی ہی سوچ اور نظریات کے سانچے کی بدولت ہیں اور آپ نے ان نظریات کو اپناتے ہوئے کوئی شعوری اور عقلی کوشش نہیں کی ہوتی بلکہ جو جیسا مل رہا تھا اس کو ویسے ہی قبول کرتے گئے اور یہی وہ پہلی کڑی ہے جو غلط جڑتی ہے اور ایک ایسی زنجیر بنا دیتی ہے جس سے آزادی حاصل کرنے میں بہت جد وجہد لگتی ہے۔
سوچ کو بہتر اور غلطیوں سےپاک کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اپنے موجودہ نظریات کے پردوں میں چھپے ہوئے ان رجحانات کا عقلی جائزہ لیا جائے ان کو کریٹیکل تھنکنگ کی بھٹی میں تاپا جائے اور لو جیکل تھنکنگ کے پانی سے ٹھنڈا کیا جائے تاکہ نظریات میں موجود نا معقولیت کی کثافت کو الگ کر کے سوچ کے ڈھانچے کو شفاف کیا جائے اگرچہ پڑھنے میں یہ عمل سادہ معلوم ہورہا ہےمگر عملی طور پر ایک بہت بڑی مشقت ہے جس کی اذیت سے گزرتے ہوئے یقینا ً آپ کو اپنے ان خیالات کا دان دینا ہو گا جن کو آپ بچپن سے اب تک ایک سہولت کے طور پر استعمال کر رہے تھے جبکہ حقیقت میں وہ خیالات محض ایک دھوکہ تھے جو کہ آپ کو مسائل سے الجھاتے تھےنہ کہ سلجھاتے تھے۔
جب آپ سوچ کی بہتری کا ارادہ کر لیں تو اس عمل کے لیے خود کی رہنمائی کرنے کا بندوبست بھی کر لیں کیونکہ کسی مستند رہنمائی کے بغیر جب آپ اپنی سوچ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ کوشش بہتر طور پر عمل میں نہ آسکے جس کی وجہ یہی کہ آپ پھر وہی غلطی دہرا سکتے ہیں کہ آپ جو سوچ رہے ہیں وہی دنیا کی آخری حقیقت ہے جبکہ یہ خود کودھوکہ دینے کے مترادف ہو گا کہ آپ اپنی سوچ کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ رہنمائی کے لیے کسی ایسے ایکسپرٹ کی رائے لیں جو سوچ ، سوچ کے مدراج اور سوچ کی غلطیوں کو سمجھنے کے حوالے سے مستند علم رکھتا ہو تاکہ آپ کی سوچ کی بہتری بہترین طریقے سے عمل میں آسکے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں