• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/اپنے وقت کا ایک عظیم کلاسیکل شاعر ابونواس مجھ سے ہمکلا م تھا (قسط19)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/اپنے وقت کا ایک عظیم کلاسیکل شاعر ابونواس مجھ سے ہمکلا م تھا (قسط19)۔۔۔سلمیٰ اعوان

پھر جیسے وہ خوابناک سی آواز میں بولنا شروع ہوئے۔
ہمارا نوجوان زُلزل عود Oudبجاتا تھاتو گلیوں میں چلتے لوگوں کے قدموں کو زمین جکڑ لیتی تھی استادوں کا استاد جس نے بے شمار راگنیوں کو ایجاد کیا۔اسحاق اُسی کا شاگرد تھا اور اُس میرے ہم عصر ابراھیم موصلی کے گانے پر تو پرندے پھڑ پھڑاتے ہوئے نیچے گِرتے تھے۔دجلہ کا پانی ساکت ہوجاتا تھا۔ہوائیں چلنا بھول جاتی تھیں۔اُس کی انگلیوں کی پوروں سے سُر پھوٹتے تھے۔راگنیاں جنم لیتی تھیں۔وہ سُر اور گلے کا بادشاہ تھا۔
اب مریم فارس سامنے تھی۔کیاطرحدار لڑکی تھی۔شانوں پر بکھری گھنگریالی زلفوں پر کہیں شام کی لالیوں کا گمان پڑتا تھا۔نیم عریاں جسم اور اداؤں کا بانکپن۔
میں نے چہرے کے تاثرات سے یہ جاناتھا کہ اُن آنکھوں میں نئے رنگ و آہنگ کو دیکھنے کا سُرور ضرور تھاپر گیت کی شاعری کے معیار پر اعتراض تھا۔
”زبید والا قصّہ نہیں سنائیں گے۔“
زور دار قہقہ فضا میں گونج گیا تھا۔
”میری دُکھتی رگوں پر آپ کی انگلیاں ہیں۔“
”بخدا نہیں۔“
میں بھی ہنس پڑی تھی۔
”دن تو موسم بہار کی رتوں والے تھے۔کونپلیں پھوٹتی تھیں اور دجلہ بہت گدلا گدلا سا تھا۔پانی کے بہاؤ نے اس سال ابھی سے ہی آخری کناروں کو پچھاڑنا شروع کردیا تھا۔
شام کی سنہری کرنوں میں خلیفہ کا محل، دجلہ کے پار برامکیوں کے شاندار محل فن تعمیر کے وہ نادر نمونے کہ جو بندے کو رُک کر دیکھنے پر مجبورکرتے تھے۔باغ میں دنیا جہاں کے درختوں کی نادر اقسام،کیاریوں میں کھلے سینکڑوں اقسام کے پھولوں کی مہکار، جھاڑیوں کی قطع برید،کہیں سانپوں،شیروں،چیتوں،موروں کی صورت باغبانوں کی فنکاری کے عکاس،گھاس کے قطعوں میں موتی بکھیرتے حوض جن میں ناچتی مچھلیاں۔دجلہ کے اوپر مرغابیوں کی ڈاروں کو پر پھڑپھڑاتے ہوئے قطاروں کی صورت اڑتے شام کی زرنگار کرنوں میں دیکھنا۔واللہ کسقدر دل خوش کن منظر تھا۔
میں خلیفہ کے بُلاوے پر اُن سے ملاقات کیلئے آیا تھااور چند لمہوں کیلئے رُکا تھا۔ بالکونیوں سے باہر کے منظر جیسے چوکھٹوں میں نصب تصویروں کی مانندمجھے دکھے تھے۔
کمرے میں تنہائی تھی۔نبیذسے بھری صراحی اور فواکہات کی سینی سامنے تھی۔میں نے مزاج شاہی کی افسردگی محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”واللہ امیر المومنین آپ بھی کیا چیز ہیں؟ فردوس بریں میں رہتے ہیں۔ذرا نگاہ اٹھا کر تو دیکھئیے۔باہر کے منظر اُمنگیں جگانے اورجذبات اُبھارنے والے ہیں اور آپ ہیں کہ ملول بیٹھے ہیں۔“
میں نے اپنا تازہ کلام سنایا اور کہا۔
”جعفر برمکی نے کنیز خریدی ہے۔چہرہ جس کا تُرک شہزادیوں کا سا،جسم رومی نازنینوں، نین حجازی دوشیزاؤں اور کمر یمنی مٹیاروں جیسی ہے۔ حضُور اِس گناہ ثواب کو چھوڑئیے۔یہ دو روزہ زندگی ہاتھ سے گئی سو گئی۔لُطف اٹھائیے۔شراب سے،شباب سے اور سمے کی ساعتوں سے۔
ابراہیم موصلی اور ابنِ جامع کو بلوائیں۔راگ و راگنیوں سے دل بہلائیں۔پری چہرہ نازنینوں سے اپنی راتوں کو آباد اور شاد کریں۔“
خلیفہ کی افسردگی دُور ہوئی۔مُسکرایا،ہنسا اور شاد کام ہوا۔
میں گھر لَوٹا۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دستک ہوئی۔سمجھا کہ غلام خلیفہ کی جانب سے انعام و اکرام لے کر آئے ہوں گے۔
کُنڈی کھولی۔غلاموں کی ایک لام ڈور تھی جو دروازے کو دھکّے مارتی اندر آئی۔ مجھے پکڑا۔وہ پٹائی کی کہ چارپائی پر پڑنے اور تیل ہلدی لگانے والی بات ہوگئی تھی۔
معلوم ہوا کہ ابونواس کے محل سے نکلتے ہی زبیدہ خاتون غُصّے سے لال پیلی ہارون کے کمرے میں آئی اور پُوچھا کہ”ابونواس آپ سے کیا باتیں کرتا تھا؟“
زبیدہ بڑی زبردست اور ڈاڈھی ملکہ تھی۔خلیفہ تو پل بھر میں ہی منکر ہوگیا۔وہ بپھری۔
”امیر المومنین کمال کرتے ہیں۔میں نے خود اپنے کانوں سے اُسے تمہیں بہکاتے اور گناہ کی ترغیب دیتے سُنا۔تم سے اتنا نہ ہوا کہ اُسے پھٹکار دواور نہیں تو ڈانٹ ڈپٹ دو۔“
ہارون ہنسا۔”بھئی زبیدہ سچی بات ہے۔ایسی اچھی اچھی باتوں پر ڈانٹنے کا کیا کام۔“
اور زبیدہ نے اپنے ملازموں سے ابونواس کو ایسی پھینٹی لگوائی کہ بیچارہ دو ماہ تک بستر پر پڑا رہا۔
مجھے مزہ آیاکیونکہ ایک خوبصورت قہقہ فضا میں دیر تک گونجا۔ خلیفہ کو ایک دن پھر میری ہڑک اٹھی۔بلا بھیجا۔ایسی خستہ حالی دیکھی تو پوچھا۔
”ابونواس تمہیں کیا ہوا؟بیمار تھے کیا؟“
”امیر المومنین بس کچھ مت پوچھئیے۔“
”ہاں ابونواس اُس دن کی طرح کچھ مزے مزے کی باتیں ہو جائیں۔کچھ ذکر پری پیکروں اور پری وشوں کا کہ طبیعت اُداس ہے۔تمہاری باتوں سے شاید راحت و سرور نصیب ہو۔“
میں نے دونوں کمروں کے بیچ دروازے میں رکھے چوبی پردے کے پیچھے جان لیا تھا کہ وہاں کون ہے؟
”ہاں تو امیر المومنین اُس دن میں آپ کوبتا رہا تھا کہ عربی میں ایک کہاوت ہے کہ جس کی دو بیویاں اُس کی کیا زندگی؟اِدھر جھوٹ اُدھر جھوٹ۔اِدھر کچھ اُدھر کچھ۔جس کی ہوں تین بیویاں وہ بیچارہ توگویا دُکھوں کی سان پر چڑھ گیا۔ اور جس نے کی چاروہ بنا مظلوم۔نہ زندوں میں نہ مُردوں میں۔
تو امیرالمومنین میں نے تو دنیا کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیاہے کہ بیوی بس ایک ہی،دل کی وہی رانی۔“
ہارون الرشید نے پہلے تو حیرت سے آنکھیں پھاڑیں پھر چیخا۔
”ابونواس تم بکواس کرتے ہو۔قسم لے لو مجھ سے جو تم نے اُس دن ایک بھی ایسی بات کی ہو۔“
”امیر المومنین“ابونواس عاجزی سے جھُکتے ہوئے بولا۔
”آپ کو میری باتیں بھول گئی ہیں شاید۔میں نے اُس دن آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ بنی مخزوم قریش میں افضل ترین زبیدہ خاتون دختر قاسم اُس قوم کے خوشنما پھُولوں میں سے سب سے حسین پھول۔اُس دن مجھے محسوس ہوا تھا کہ آپ کا دل دوسری عورتوں کی طرف مائل ہے۔میں آپ کو سمجھانا چاہتا تھا کہ زبیدہ خاتون ہی آپ کے قلب و جان کیلئے راحت کا سامان ہے۔“
ہارون الرشید غُصّے میں چلایّا۔
”ابونواس تم جھوٹے ہو۔خدا کی لعنت ہو تم پر۔“
ابونواس نیم ایستادہ ہوا۔ کورنش بجالاتے ہوئے بولا۔
”امیر المومنین آپ مجھے وقت سے پہلے مروانا چاہتے ہیں۔آپ چاہتے ہیں کہ یہ جو میں لنگڑاتا ہڈیاں گوڈے رگڑتا آپ کے حضور حاضر ہو گیا ہوں۔اس سے بھی جاؤں۔رحم کیجئے مجھ پر۔“
اُسی وقت پردے کے پیچھے سے زبیدہ کی ہنسی سُنائی دی۔
”ابونواس تم سچے ہو۔تم نے یہ سب کہا ہوگا۔امیر المومنین چونکہ پریشان تھے انہوں نے یہ سب باتیں اپنے پاس سے گھڑیں اور تمہارا نام لگا دیا۔“
”بالکل،بالکل،درست،درست کہتا میں اپنے گھر دوڑتا گیا۔گھر پہنچا تو دروازے پر زبیدہ کے غلام خلعتِ فاخرہ اور زرنقد لئیے کھڑے تھے۔
کئی ماہ بعد خلیفہ کو یہ سب معلوم ہوا۔بہت ہنسا۔انعام و اکرام سے نوازا۔
”وہ کلام الےّل والا کیا قصّہ تھا؟اُسے بھی تو سنائیں۔“
”ارے بھئی اُن دِنوں محل میں آرمینیاکی چند کنیزوں کا بڑا چرچا تھا۔آرمینیا کی لونڈیاں بڑی مہذب اور شائستہ سمجھی جاتی تھیں۔محل میں بچوں کی تربیت کا بیشتر کام اُن کے سپرد تھا۔ایک رات ہارون نے تنہائی میں ایک طرحدار اور دل کش کنیز سے کچھ شرارت کرنی چاہی۔اُس نے صبح پر ٹرخا دیا۔اگلے دن ہارون نے اُسے بلوایااور وعدہ یاد دلایا۔آرمینیائی لونڈی نے ادائے بانکپن سے کہا۔
کلام الےّل یمعوۂ النھار۔
ہارون مسکرایا۔اُسے لونڈی کی بات بہت پسند آئی تھی۔بغداد کے سب شاعروں کواکٹھا کیا اور کہا کہ اس پر گرہ لگائیں۔
”جانتی ہیں یہ بازی کس نے جیتی؟انہوں نے میری طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تھا۔میرے جواب کا انتظار نہیں کیا۔فوراً اپنے سینے پر فخریہ انداز میں ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
”ارے بھئی میں نے۔یعنی ابونواس نے۔میں نے تضمین کے مصرعوں میں ہارون الرشید کی دراز دستی کا سارا حال بیان کردیا تھا۔
”تو اب رخصت۔تمہاری مچھلی بس آیا ہی چاہتی ہوگی۔“
میں نے نگاہیں اٹھا کر دُور پھینکیں۔افلاق تو مجھے کہیں نظر نہیں آیا تھا۔
”کیا مجھے تھوڑا سا وقت اور نہیں عنایت کریں گے۔“
میرا انداز بڑا ملتجی سا تھا۔
کچھ اپنے بارے میں بھی بتادیں۔خود سے ملادیں۔
”ارے بھائی ہماری زندگی بس ایسی ہی اُجڑی پُجڑی سی تھی۔جسکا نُطفہ تھا۔اُس کی صورت تو کبھی دیکھی ہی نہ۔ بس سُنا کہ مروان دوم کی فوج میں ایک سپاہی ہے۔اور نام بھی معلوم نہیں ایک بار ماں نے”حینی ” بتایا تھا۔ میری ماں گلبان ایرانی اور پیشے کی جولاہی تھی۔کھڈی پر بڑا خوبصورت کپڑا بُنتی تھی۔ صورت کی اتنی حسین کہ ہواؤں میں اڑتے پرندے دیکھ لیں تو غش کھا کر سیدھے اُس کے قدموں میں گریں۔نام تو میرا ماں نے الحسن ابن حینی ال حاکمی رکھا۔میں خوبصورت تھا۔سنہری بالوں میں کُنڈل پڑتے تھے اور دو لٹیں شانوں پر گرتی تھیں تو گاؤں کے من چلوں نے”ابونواس“ کہنا شروع کر دیا۔
ہاں پیدا کہاں ہوا؟کچھ پتہ نہیں۔کسی نے دمشق کہا۔کسی نے بصرہ اور کچھ اہواز کہتے ہیں۔حقیقت کیا ہے؟مجھے تو خود معلوم نہیں۔
ابو نواس نے منہ بنایا۔ہاتھوں کی انگلیاں نچائیں سارے چہرے پر نفی کا تاثر بکھیر دیا۔
ماں نے مجھے یمن کے کسی تاجر کے پاس کیوں بیچ دیا؟میں کبھی سمجھ نہیں سکا۔چھوٹا
سا تھا۔کیا میری روٹی اُس پر بھاری تھی؟
یمن کے اِس تاجر کی دوکان بصرہ میں تھی۔کھانے پینے کی یہاں کھُل ڈُل تھی۔خوب قد کاٹھ نکالا۔یوُسف اوّل جیسا تھا۔ذہین بھی بہت اور حسین بھی بہت۔ راہ چلتے رُک کر دیکھتے ضرور تھے۔
اور پھر اُس نے مجھے دیکھا۔ولیبہ ابن احباب نے یہ شاعر تھا۔اُسنے مجھے خریدا اور اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔پڑھائی لکھائی، گرامر،حرف و نحو۔کوئی دو سال بدؤں میں بھی
رکھا کہ زبان خالص ہو جائے۔
یہ ولیبہ ہی تھا جو مجھے بغداد لایا۔یہیں میں نے شاعری شروع کی۔مزاح سے بھرپور۔ صحرائی روایات کے برعکس،شہری زندگی کی عکاس جسمیں نوخیز لڑکوں کی محبت اور شراب تھی۔
میں باغی تھا۔روایات کا، اقدار کا، مذہب کا۔سُرور ملتا تھا جب مُلّا چیختے چلّاتے تھے جب لعن طعن ہوتی تھی۔
قصیدہ گو تھا اپنے سرپرستوں کا۔برا مکّیوں کیلئے کیوں نہ لکھتا۔وہ تو نگینے تھے جو عباسیوں کو مل گئے تھے۔عربوں کا عروج اپنی جگہ، اُنکی فتوحات کے پھیلاؤ کی اہمیت کا اپنا مقام۔اُنکی زبان کی وسعت،مذہبی رواداری،آئین و دستور کی بالادستی نے دوسری قوموں پر اُنہیں غالب کیایہ سب حقائق مسلّم۔لیکن ایرانیوں کے تہذیب و تمدّن کی شائستگی، نرمی اور لطافت بھی اپنی جگہ بڑی نمایاں تھی۔برامکی ایرانی جنہوں نے اپنا رنگ انکے رنگ میں شامل کیا اور اُسے مزید نکھارا۔
برامکی میرے محسن تھے۔مجھے نوازتے تھے۔جعفر برمکی نے جب اپنا وہ شاندار محل بنایا جو شان و شوکت کے اعتبار سے خلیفاؤں کے محلوں سے بھی بڑھ چڑھ کر تھا۔اور ہاں دیکھو یہ میری چھٹی حِس تھی۔یا تم اِسے میراوجدان کہہ لو کہ جیسے مجھے ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ ہوا۔ محل کو دیکھتے ہی بے اختیارمیرے ہونٹوں پر یہ اشعار تھرتھرانے لگے۔
اے محل شکستگی کے آثار تجھ پر ظاہر ہیں
میں نے تیری دوستی میں خیانت نہیں کی
اے برمک کی اولاد جب تم دُنیا سے گُم ہو جاؤ
تم پر ہمیشہ سلامتی رہے۔ دنیا تمہیں یاد کرے۔
ہارون الرشید کو مجھ پر اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔اُسنے بھی تو احسان
فراموشی کی انتہا کر دی تھی۔“
”ابونواس ہارون الرشید پر تمہارا اتنا غصّہ درست نہیں۔طاقتور شاہوں کی کتاب میں یہ درج ہوتا ہے کہ صرف انہیں ہی مرکز رہنا ہے اور جب کوئی دوسرا مرکز بننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جوبرمکیوں کے ساتھ ہوا۔انہوں نے اختیارات اور شاہانہ اظہار کی تمام حدیں پھلانگ لی تھیں۔“
”ہاں مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ہجو لکھی تھی، ہارون الرشید کی ہجو، جو بغداد کے گلی کوچوں میں زور و شور سے گونجی۔ خلیفہ نے مجھے دیس نکالا دے دیا۔پھر بھاگنا پڑا تھااور میں مصر بھاگ گیا تھا۔
میری بہترین شاعری امین کے دور میں لوگوں کے سامنے آئی تھی۔“
”ابو نواس اگر کچھ کہوں تو سُنیں گے نا۔تم نے امین کا اُستاد ہونے کے ناطے اُسے بھی شراب پر لگا دیا تھا۔امین بہت خوبصورت اور وجہیہ لڑکا تھا۔“
”تمہاری عدالت میں ہوں۔جو چاہو کہہ سکتی ہو۔ “
”نہیں نہیں ابو نواس۔میں نے تو جوماڑا موٹا پڑھا ہے اُسی کی روشنی میں تم سے
بات کرتی ہوں اور تصدیق چاہتی ہوں۔
تو پھر سُنیں۔یہ امین ہی تھا جس کی شعر گوئی کی اصلاح پر زبیدہ نے مجھے مامور کیا۔میں نے اصلاح کی۔غلطیاں بتادیں تو نوجوان شہزادے نے مشتعل ہو کر مجھے بندی خانے میں ڈال دیا۔ہارون کو پتہ چلا تو بیٹے پر ناراض ہوا اور مجھے رہائی دلوائی۔
چندہی دنوں بعد جب میں خلیفہ کی خدمت میں حاضر تھا انہوں نے بیٹے سے کہا کہ اپنا تازہ کلام ابونواس کو سناؤ۔امین نے ابھی دو تین شعر ہی پڑھے ہوں گے جب میں کھڑا ہوگیا۔ہارون نے بے حد تعجب سے میری طرف نگاہیں کیں اور استفسار کیاکدھر؟میں نے کہا بندی خانے جانے کیلئے۔
میں کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔بھئی ہم تو ایسے ہی تھے نڈر اور بے باک سے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ امین کے مرنے پر جو نوحے میں نے تخلیق کیئے وہ عربی شاعری کا سرمایہ ہیں۔زبیدہ کے نالے اور بغداد کی گلیوں میں گونجتے نوحے میری شاعری کے صدقے تھے جنہوں نے مامون کو فتح یاب ہو کر بھی بغداد میں داخل ہونے سے مہینوں روکے رکھا۔خائف تھا وہ۔
مامون میرا نام سُننا نہیں چاہتا تھا۔“
”ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابونواس تم آخری عمر میں تائب ہو گئے تھے۔بڑے مذہبی اور خدا پرست بن گئے تھے۔“
”یہ ہوائی تو میرے کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ جیل اور بڑھاپے نے پریشان کر دیا تھا۔انعام کے لالچ میں مدح سرائی بھی کی۔اور ہاں ایک بہت بڑی حماقت بھی سرزد ہوئی کہ مامون کے درباری مشیر نے چالاکی سے علی ابن طالب کے خلاف ہجو بھی لکھوا لی اور اُسے بغداد کے کوچہ و بازار میں نشر بھی کر دیا۔“
”کہتے ہیں زہر دیا گیا تھا تمہیں۔اسماعیل بن ابو سہل مرکزی کردار تھا۔“
”زہر ملا۔یا جیل میں ہی طبعی موت مرا۔بس دنیا سے جانے کا بہانہ ہی چاہئیے تھا۔ وہ مل گیا اور چلا گیا۔
لو تمہاری مچھلی آگئی ہے۔کھاؤ۔میں چلتا ہوں۔ایک ہاتھ میری طرف بڑھا تھا جسے میں نے محبت سے تھاما۔
بڑی سی سینی میں ٹماٹر،پیاز،کھیروں اورچٹنی کے ساتھ سجی مچھلی آگئی تھی۔
افلاق بتاتا تھا کہ مچھلی الاؤ پر روسٹ کے بعدمرچ مصالحوں کے ساتھ گرم کوئلوں ملی ریت میں دم پخت کی جاتی ہے۔
اب ذائقے کے بارے میں کیا کہوں۔استنبول کا پرنس آئی لینڈ یاد آگیا تھا۔کہ تب بھی جی چاہا تھا اٹھا کر باسفورس میں پھینک دوں۔میں تو چاہتی تھی۔سیما ہی نہیں مانی۔ اور اب بھی اگر افلاق ساتھ نہ ہوتا تو دجلہ میں پھینکنا ضروری تھا۔
افلاق بیٹوں جیسا ہی تھا۔ذائقے سے آشنا بھی۔تو ہرج ہی کیا تھا کہ اُسے مچھلی بھی کھلاتی جاؤں اور باتیں بھی کرتی جاؤں اور اُس شخصیت کو تھوڑا سا اور یاد کر لوں۔
اُس کے مرنے پر جب گھر کی تلاشی لی گئی تو بدخواہوں اور حاسدوں کو صرف کاغذوں کا ایک دستہ اور کہانیوں کی ایک کتاب کا بیرونی کور ہی ملا تھا۔دستے میں حرف و نحو اور گرامر کی چند تراکیب درج تھیں۔وہ ٹھیک کہتا تھا۔اُس کی شاعری سے متعلق ہر بات کی تان اس کے غیر معمولی گہرے اور ذومعنی اظہار پر ہوتی تھی۔
اپنے عہد اپنے وقت کا ایک بڑا شاعر ابو نواس۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply